دہلی کا الیکشن اور مسلمان

سہیل انجم

دہلی میں اسمبلی انتخابات کی گہما گہمی تیز ہو گئی ہے۔ ایسا سمجھا جاتا ہے کہ اس بار عام آدمی پارٹی، بی جے پی اور کانگریس کے درمیان سہ رخی مقابلہ ہوگا۔ حالانکہ کانگریس کی پوزیشن کوئی بہت اچھی نظر نہیں آ رہی لیکن گزشتہ دو اسمبلی انتخابات کے مقابلے میں کچھ بہتر ہے۔ جب بھی کہیں الیکشن ہوتا ہے اور وہاں مسلمان ووٹر ہوتے ہیں تو یہ اندازہ لگانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ مسلمانوں کا جھکاو کس کی جانب ہے۔

چونکہ عمومی طور پر مسلمان بی جے پی کی پالیسیوں کی وجہ سے اسے ووٹ دینا پسند نہیں کرتے، اس لیے ان کا ووٹ غیر بی جے پی پارٹیوں کو ملتا ہے۔ لیکن اس کا فائدہ بی جے پی بھی اٹھاتی ہے۔ وہ اس طرح کہ اس کے ایک امیدوار کے مقابلے میں کئی غیر بی جے پی امیدوار کھڑے ہو جاتے ہیں اور مسلمانوں کا ووٹ بٹ جاتا ہے، جس کی وجہ سے اس کا امیدوار نکل جاتا ہے۔ لیکن دہلی میں عام طور پر ایسی صورت حال نہیں ہوتی۔ جب سے عام آدمی پارٹی قائم ہوئی ہے، مسلمانوں کا اکثریتی ووٹ اسی کو ملتا رہا ہے۔ اس سے قبل کانگریس کو ملتا تھا۔ بی جے پی کو مسلم ووٹ بہت کم ملتا ہے۔ لیکن اس بار دہلی میں ایسا لگتا ہے کہ مسلم ووٹ عام آدمی پارٹی اور کانگریس دونوں میں بٹے گا۔

دراصل مسلمانوں کے تعلق سے عام آدمی پارٹی کی پالیسیاں اطمینان بخش نہ ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کا کچھ حصہ کانگریس کی طرف جھک سکتا ہے۔ حالانکہ اگر مسلم اکثریتی حلقوں کے مسلمانوں کی بات کریں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اگر مسلمانوں کے ووٹ کانگریس کو ملے تو ان کی تعداد بہت کم ہوگی۔ مسلمانوں کا کہنا ہے کہ وہ عام آدمی پارٹی سے خوش نہیں ہیں۔ اروند کیجریوال نے مسلمانوں کے حق میں کچھ نہیں کیا۔ لیکن ان کو ووٹ دینا مسلمانوں کی مجبوری ہے۔ وہ بی جے پی کو شکست دینے کے لیے یہ کڑوا گھونٹ پینے کے لیے تیار ہیں۔

وہ اس بات کو محسوس کرتے ہیں کہ ان کا ووٹ منتشر نہیں ہونا چاہیے۔ حالانکہ آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (ایم آئی ایم) خاص طور پر اوکھلا حلقے میں جیل میں بند شفاءالرحمن کو امیدوار بنا کر دہلی میں اپنی موجودگی درج کرانے کی کوشش کر رہی ہے اور اس امیدوار کی وجہ سے اس حلقے کے کچھ مسلمان تذبذب کا شکار ہیں۔ لیکن مسلمانوں کی اکثریت کا نظریہ واضح ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ دہلی میں ایم آئی ایم کا کوئی وجود نہیں ہے۔ اس کا یہ قدم مسلمانوں میں انتشار پیدا کرنا ہے تاکہ اس کا فائدہ بی جے پی اٹھا لے۔ دراصل جہاں بھی ایم آئی ایم اپنے امیدوار اتارتی ہے، وہاں اس پر یہی الزام لگتا ہے۔

جبکہ اس کے صدر اسد الدین اویسی کی دلیل ہے کہ ایک سیاسی پارٹی ہونے کی وجہ سے ان کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے امیدوار اتاریں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ کیا بی جے پی کو روکنے کی ذمہ داری تنہا ان کے اوپر ہے؟ ان پارٹیوں پر یہ ذمہ داری عائد نہیں ہوتی جو خود کو سیکولر کہتی ہیں اور مسلمانوں کے ووٹ لے کر ان کو فراموش کر دیتی ہیں۔ بہرحال یہ بحث کا الگ موضوع ہے۔ لہٰذا ہم اسے یہیں چھوڑ کر آگے بڑھتے ہیں۔

دہلی میں 2011 کی مردم شماری کے مطابق مسلمانوں کی مجموعی آبادی اکیس اعشاریہ چھ لاکھ یعنی تقریباً تیرہ فیصد ہے۔ دہلی میں چھ اسمبلی حلقے ایسے ہیں جہاں مسلمان ووٹر بیس سے پچیس فیصد ہیں، یعنی وہ نتیجے پر اثر انداز ہونے کی پوزیشن میں ہیں۔ یہ ہیں سیلم پور، اوکھلا، مٹیا محل، بلی ماران، بابر پور اور مصطفی آباد۔

ایک رپورٹ کے مطابق:

  • سیلم پور میں مسلم آبادی پچاس فیصد،
  • اوکھلا میں 43 فیصد،
  • مٹیا محل میں 48 فیصد،
  • بلی ماران میں 38 فیصد،
  • بابر پور میں 35 فیصد،
  • مصطفی آباد میں 36 فیصد مسلمان ہیں۔

اس کے علاوہ سیما پوری میں 25 فیصد، گاندھی نگر میں 22 فیصد، چاندنی چوک، صدر بازار، وکاس پوری اور کراول نگر میں بیس بیس فیصد ہیں۔ گویا بارہ حلقے ایسے ہیں کہ اگر مسلمان حکمت عملی سے کام لیں تو نتائج پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ لیکن سب سے بڑا سوال یہی ہے کہ کیا ان حلقوں میں مسلمان نتائج پر اثر ڈالنے میں کامیاب ہوں گے؟

مسلمان اکثریتی حلقوں میں مسلمانوں کے مسائل تقریباً ایک جیسے ہیں، یعنی:

  • سڑکوں پر بہتا سیور کا پانی،
  • سڑکوں اور گلیوں کی خستہ حالت،
  • شمال مشرقی دہلی کے فسادات،
  • ٹریفک جام،
  • پانی کی قلت اور کوڑے کا انبار وغیرہ۔

عام آدمی پارٹی نے دہلی کارپوریشن کا الیکشن کوڑے کا پہاڑ ہٹانے کے وعدے پر لڑا تھا، لیکن یہ وعدہ پورا نہیں ہوا۔ اوکھلا میں کوڑے کے الگ الگ ٹھکانے بنتے رہتے ہیں۔ ان کو ڈالنے کا کوئی بہتر انتظام نہیں ہے۔ اروند کیجریوال نے حکومت میں پہلی بار آنے کے وقت ہی کہہ دیا تھا کہ ان کے پاس مسلمانوں کے لیے الگ سے کوئی پروگرام نہیں ہے۔ البتہ انھوں نے غیر مسلموں کے لیے اسکیموں کا اعلان ضرور کیا ہے۔

دہلی کے اس الیکشن میں تینوں بڑی پارٹیوں کی جانب سے عوام کے لیے بے شمار لبھاونے وعدے کیے جا رہے ہیں۔ لیکن ان پر عمل ہوگا یا نہیں، اس سے ان کو کوئی غرض نہیں۔ دہلی کے انتخابات کو نہایت اہمیت حاصل ہے، یہی وجہ ہے کہ بی جے پی عام آدمی پارٹی سے اقتدار چھیننے کے لیے ہر قسم کے حربے استعمال کر رہی ہے۔

Share