شهر كی كنجیاں

علی میاں تاج الدین الڈے، مروڈ جنجیره

هجرت كے پندرهویں سال حضرت عمر بن خطابؓ نے اسلامی لشكر كے قائدین حضرت عمروبن عاصؓ، شرجیل بن حسنهؓ اور ابو عبیدهؓ كو مقدس سرزمین فلسطین كے حكمران كی طرف روانه كیا، تاکہ وه شهر كی كنجیاں ان قائدین كے سپرد كردے۔ لیكن حكمران پادری جعفر وینوس نے كنجیاں دینے سے انكار كردیا اور كهنے لگا کہ ہماری مذهبی كتاب میں وه اوصاف ذكر ہیں جو اس شخص میں ہونے چاہئیں جو یہ كنجیاں لے گا۔

یہ جواب سن كر عمائدین اسلام نے حضرت عمر بن خطابؓ كو پیغام بھیجا کہ، اے امیر المومنین! آپ خود تشریف لائیں، كیونكه حكمران نے كنجیاں دینے سے انكار كردیا ہے۔ حضرت عمر فاروقؓ حالات سے واقف ہوكر اپنے غلام کے همراه سفر پر روانہ ہوگئے۔ راستے میں باری باری خود سوار ہوتے اور کبھی غلام كو سواری دیتے، اور کبھی دونوں پیدل چلتے تاکہ سواری تھك نہ جائے۔

جب شام كی سرحد كے قریب پہنچے تو راستے میں کیچڑ تھا۔ وہاں اونٹنی سے اتر کر جوتے کندھے پر رکھے اور اونٹنی كی لگام تھام کر راستہ عبور کیا۔ حضرت ابوعبیدهؓ استقبال كے لیے آئے اور عرض كیا: “امیر المومنین! یہ منظر ملک شام كے باشندگان دیکھیں گے، مجھے یہ اچھا نہیں لگ رہا۔”

حضرت عمر فاروقؓ نے فرمایا: “ہم ذلیل لوگ تھے، اسلام نے ہمیں عزت دی۔ اگر ہم اسلام چھوڑ کر عزت كسی اور میں تلاش کریں گے، تو اللہ ہمیں پھر ذلیل كردے گا۔”

پھر سفر جاری رہا اور سوار ہونے كی باری آخر میں غلام كی آئی۔ حضرت عمرؓ پیدل چلتے ہوئے مقدس سرزمین فلسطین کے حكمران کے دربار میں پہنچے۔ حكمران نے حضرت عمرؓ كے کپڑوں كو غور سے دیکھا اور شهر كی كنجیاں ان كے حوالے كردیں، كيونكه اس نے اپنی كتاب مقدس میں پڑھا تھا کہ یہ شخص پیدل آئے گا، غلام سوار ہوگا اور كپڑوں پر سترہ پیوند لگے ہوں گے۔

حضرت عمر فاروقؓ نے شهر كی كنجیاں لیتے ہی سجدہ کیا اور رونے لگے۔ پوچھا گیا تو فرمایا، “مجھے خوف ہے کہ دنیا تمہارے لیے سرنگوں ہوجائے گی اور تم اسلامی اخوت و مودت کھو دو گے۔ اس وقت آسمان والے بھی تمہیں نظر انداز كردیں گے۔”

یہ آج كا فلسطین ہے، جہاں ۷؍ اکتوبر ۲۰۲۳ سے حماس اور نیتن یاهو كے درمیان جنگ جاری ہے۔ لاکھوں مرد، عورتیں، بچے، بوڑھے شہید ہوچکے ہیں۔

Share