ابتدائے اسلام ہی سے دشمنانِ اسلام نے اسلامی تعلیمات پر اعتراض اور اشکال کرنا شروع کیا تھا، اور ہر دور میں اس طرح کے لوگ پائے گئے ہیں اور قیامت تک پائے جائیں گے۔ البتہ ہر زمانے میں اعتراض اور اشکال کی شکلوں اور طریقوں میں تغیر ہوتا رہا ہے۔ پوری دنیا میں اسلام اور اس کے ماننے والوں کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے کے لئے ملین ڈالر خرچ کیے جا رہے ہیں اور بے شمار افراد اس کام پر لگے ہوئے ہیں۔ لیکن اسلام کی خوبی یہ ہے کہ اسے جتنا دبایا جائے گا، اتنا ہی وہ ابھرے گا۔
ہمارے اس ملک میں ایک بڑی تعداد تو وہ ہے جو جہالت اور ناعِلمی کی وجہ سے اسلام مخالف ہیں، لیکن اس سے زیادہ خطرناک وہ پڑھے لکھے لوگ ہیں جو نام سے مسلمان لگتے ہیں لیکن دین بیزار ہیں۔ ان کے دلوں میں اسلامی تعلیمات کے بارے میں شکوک و شبہات ہیں، اسی بناء پر وہ متنازع بیانات دیتے ہیں، حقیقت کے خلاف مواد فراہم کرتے ہیں، بلکہ دشمن کے ہاتھ کا کھلونا بن کر اسلام کے خلاف بدزبانی کو کمال سمجھتے ہیں۔ کبھی ٹی وی پر، کبھی مضامین اور رسائل کے ذریعے، تو کبھی کتابی شکل میں۔
انہی لوگوں میں ہندوستانی نژاد سلمان رشدی بھی شامل ہے جو اپنے فاسد نظریات اور باطل عقائد کی وجہ سے معاشرے اور سماج کے لیے بلکہ پوری انسانیت کے لیے ناسور بنا ہوا ہے۔ آج سے تقریباً نصف صدی پہلے شیطانی آیات کے نام سے اس کی ایک تصنیف نے اسے دشمنانِ اسلام کی نظر میں ہیرو تو پوری امتِ مسلمہ کے نزدیک ملعون اور مطعون بنا دیا۔ اس کتاب کے منظر عام پر آنے کے بعد مسلمانوں میں شدید غم و غصہ پایا گیا اور حالات انتہائی کشیدہ ہو گئے۔ حالات کی سنگینی کو بھانپتے ہوئے اس وقت کی راجیو گاندھی سرکار نے اس کتاب پر پابندی عائد کر دی تھی جس سے یہ ابھرتا فتنہ دب گیا تھا۔
موجودہ مودی سرکار کے خمیر میں ہی اسلام دشمنی شامل ہے، اس لیے مسلمانوں کے جذبات سے چھیڑ چھاڑ کرتی رہتی ہے۔ ملک کی عدالتوں کو اپنے ناپاک منصوبوں کو کامیاب بنانے کے لئے استعمال کرتی ہے۔ حالیہ سالوں اور دنوں میں عدالتوں سے صادر ہونے والے بعض فیصلے اس بات کی تصدیق کرتے ہیں۔ اسی طرح کا ایک ہائی کورٹ کا فیصلہ ملعون سلمان رشدی کی اس متنازع کتاب پر چالیس سالوں سے لگی پابندی ہٹانے کا ہے۔ اس فیصلے سے مسلمانوں میں شدید بے چینی پائی جا رہی ہے۔
اس لیے کہ عدالت کا یہ فیصلہ صرف شیطانی آیات پر سے پابندی ہٹانے کا نہیں بلکہ اس فیصلے سے انسانوں کی شکل میں موجود تمام شیاطین سے پابندی ہٹا دی گئی ہے۔ اب ان شیاطین کو حکومت کی پشت پناہی میں اسلام مخالف سرگرمیوں کی اجازت مل گئی ہے۔ جب عدالتیں اور حکومتیں ہی ہماری معاند ہوں تو ان حالات میں بہت زیادہ ہوشیار اور چوکنا ہو کر دینِ متین پر استحکام کی ضرورت ہے۔ ایمان اور عقائد کی پختگی کے سلسلے میں فکر پہلے سے زیادہ ہونا چاہیے، اور اس طرح کی متنازع کتابوں اور تحریروں سے خود کو، خاص کر نئی نسل کو بچانے کی ضرورت ہے۔