صحافت ایک مقدس امانت ہے

صحافت ایک مقدس امانت ہے، ایک ذمہ داری ہے، ایک جہاد ہے۔ یہ صرف خبریں پہنچانے کا ذریعہ نہیں بلکہ حق کی آواز بلند کرنے، ظلم کے خلاف سینہ سپر ہونے اور معاشرتی شعور کو بیدار کرنے کا ایک وسیلہ ہے۔ یہ وہ چراغ ہے جو اندھیروں میں روشنی کرتا ہے، یہ وہ طاقت ہے جو ظالموں کے قلعے ہلا سکتی ہے۔ لیکن اگر یہی صحافت اپنی ذمہ داریوں سے منہ موڑ لے، تو یہ ایک مہلک ہتھیار بن جاتی ہے جو نہ صرف معاشرت کو زخمی کرتا ہے بلکہ خود اپنے وجود کو بھی مٹانے کا سامان فراہم کرتا ہے۔

۲۵ دسمبر کے دن “کوکن کی آواز” اور “رائیگڑھ چا آواز” کے صحافیوں کے ساتھ منعقد ہونے والے ایک خصوصی نشست میں، ان ہی موضوعات پر مجھے گفتگو کا موقع ملا۔ میرے سامنے وہ تمام چہرے موجود تھے جنہوں نے اپنے قلم کو حق و انصاف کے لیے اور سماج کی اصلاح کے لیے استعمال کیا ہے۔ لیکن اس گفتگو کے دوران، دل کے کسی گوشے میں یہ سوال بار بار اٹھ رہا تھا: کیا ہماری صحافت واقعی اپنے مقصد پر قائم ہے؟ یا ہم بھی ان فتنوں کا شکار ہو چکے ہیں جنہوں نے سچائی کو گمراہ کن سرخیوں کے نیچے دفن کر دیا ہے؟

میں نے اپنی گفتگو کی ابتدا قرآن کے ایک مبارک حکم سے کی:
“يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا” (الاحزاب: 70)
یعنی، اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سیدھی اور سچی بات کہو۔ اس آیت نے ہمیں یہ درس دیا کہ ہماری زبان اور ہمارا قلم صرف حق کے لیے استعمال ہونا چاہیے۔ لیکن افسوس کہ ہم میں سے کتنے ہیں جو اس حکم کی پاسداری کرتے ہیں؟

رسول اللہ ﷺ کی زندگی ہمارے لیے صحافت کے اصول و ضوابط کا بہترین نمونہ ہے۔ آپ ﷺ نے ظلم کے خلاف، باطل کے سامنے، ہمیشہ حق بات کہی، چاہے اس کے ظاہری نتائج کچھ بھی ہوں۔ آپ ﷺ کا ہر فرمان، ہر عمل، ہمیں یہ درس دیتا ہے کہ حق کی گواہی دینا ایک مومن کی ذمہ داری ہے۔ کیا ہم ان تعلیمات کی روشنی میں اپنے عمل کا جائزہ لیتے ہیں؟ صحافیوں کی اس خصوصی نشست میں جب ان موضوعات پر بات ہو رہی تھی، تو میرے ذہن میں کئی سوالات امڈ رہے تھے۔ کیا آج کا میڈیا واقعی اس راستے پر چل رہا ہے جو رسول اللہ ﷺ نے ہمارے لیے متعین کیا تھا؟ یا ہم نے اپنی ترجیحات بدل دی ہیں؟ کیا ہم نے اپنے قلم کو حق و انصاف کے بجائے دنیاوی مفادات کے لیے وقف کر دیا ہے؟

بات یہاں ختم نہیں ہوتی۔ موجودہ دور میں، میڈیا اکثر فتنوں کا شکار ہو چکا ہے۔ جھوٹے پروپیگنڈے، نفرت انگیز بیانیے، اور مفاد پرستی کے جال میں پھنس کر، یہ صحافت کی روح کو زخمی کر رہا ہے۔ عراق پر حملے کے وقت عالمی میڈیا نے جو کردار ادا کیا، وہ ہمارے سامنے ہے۔ جھوٹے دعوے، جھوٹے الزامات، اور ایک پورے ملک کی تباہی۔ لیکن اس سے بھی زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ ہم نے اس سے کچھ نہیں سیکھا۔ آج بھی ہم صحافتی میدان میں بہت پیچھے ہیں اور میڈیا کی طاقت کو سمجھ نہیں پا رہے۔ باطل میڈیا جھوٹ کو سچ بنانے کے لیے اپنی تمام توانائیاں صرف کر رہا ہے اور ہم حالات کا رونا رو رہے ہیں۔

اسی محفل میں جب “کوکن کی آواز” کے کردار پر بات ہوئی، تو دل مطمئن ہوا کہ یہ اخبار آج بھی اپنے مقصد پر قائم ہے۔ یہ محض ایک خبرنامہ نہیں بلکہ ایک تحریک ہے، ایک مشن ہے جو حق و انصاف کے فروغ کے لیے کوشاں ہے۔ “کوکن کی آواز” نے ہمیشہ مظلوموں کی آواز بلند کی، ان کے مسائل کو اجاگر کیا، اور ان کے حل کے لیے عملی تجاویز پیش کیں۔ یہ صحافت کی اصل روح ہے، اور اسی روح کو زندہ رکھنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ہمیں گواہی کو چھپانے سے منع کیا ہے:
“وَلَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ ۚ وَمَنْ يَكْتُمْهَا فَإِنَّهُ آثِمٌ قَلْبُهُ” (البقرہ: 283)
یعنی، گواہی کو نہ چھپاؤ، اور جو اسے چھپائے گا، اس کا دل گناہ گار ہوگا۔ یہ آیت ہمیں یاد دلاتی ہے کہ حق بات چھپانا نہ صرف ایک گناہ ہے بلکہ یہ معاشرتی بگاڑ کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ ہمیں بھی اپنی تحریروں اور اپنی خبروں میں اس حکم کی پاسداری کرنی چاہیے۔

مفتی رفیق پورکر کی صدارت میں منعقد اس نشست میں، یہ عزم کیا گیا کہ “کوکن کی آواز” اور “رائیگڑھ چا آواز” ہمیشہ حق کی آواز بلند کرتے ہوئے جھوٹ، پروپیگنڈے، اور نفرت انگیزی کے خلاف سینہ سپر ہوں گے، اور معاشرے کے ان کمزور اور مظلوم طبقات کی آواز بنیں گے جنہیں کوئی سننے والا نہیں۔ یہ صحافت کی اصل روح ہے، اور یہی روح ہماری کامیابی کی ضمانت ہے۔

اجلاس کے اختتام پر، اردو و مراٹھی اخبار کے مدیرِ اعلیٰ دلدار پورکر نے صحافی حضرات سے درخواست کی کہ اپنی تحریر کو ہمیشہ اس مقصد کے لیے استعمال کریں جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے ہمارے لیے متعین کیا ہے۔ جھوٹ اور ظلم کے خلاف کھڑے ہوں، اور حق و انصاف کے فروغ کے لیے اپنی تمام توانائیاں صرف کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس ذمہ داری کو نبھانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

Share