عیسوی کیلنڈر کے متعلق ایک غلط فہمی

دنیا میں سب سے زیادہ رائج دو کیلنڈر ہیں: ایک عیسوی یا شمسی کیلنڈر، دوسرا ہجری یا قمری کیلنڈر۔ عیسوی کیلنڈر کو “عیسوی” اس لیے کہتے ہیں کہ اس کا پہلا سال سیدنا حضرت عیسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کی ولادت کے سال کو قرار دیا گیا ہے، اور اسے “شمسی” اس لیے کہتے ہیں کہ شمس یعنی سورج کی نقل و حرکت کے اعتبار سے اس کے دن و مہینے متعین کیے گئے ہیں

ہجری کیلنڈر کو “ہجری” اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کا پہلا سال سید الاولین و الآخرین محمد عربی ﷺ کے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ہجرت کے سال کو قرار دیا گیا ہے اسے “قمری” اس لیے کہتے ہیں کہ اس کے دن و مہینے چاند کی نقل و حرکت سے وابستہ ہیں

اوپر کی وضاحت سے ان دونوں کیلنڈروں کے زیادہ رائج ہونے کی ایک ظاہری وجہ بھی سامنے آتی ہے دنیا میں تعداد کے اعتبار سے سب سے زیادہ عیسائی ہیں، اور عیسوی کیلنڈر کا تعلق سیدنا حضرت عیسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کی پیدائش سے ہے چونکہ عیسائیوں کے بعد اسلام کے پیروکار سب سے زیادہ ہیں، اور ہجری کیلنڈر سے بہت ساری اسلامی عبادات جڑی ہوئی ہیں، مزید یہ کہ ہجری کیلنڈر کا تعلق جناب محمد رسول اللہ ﷺ کی مبارک ذات سے ہے

بعض لوگ یہ کہتے اور پیغام بھیجتے ہیں کہ “ہمیں جنوری پر نئے سال کی مبارکباد نہ دی جائے بلکہ محرم پر دی جائے کیونکہ ہم مسلمان ہیں اور ہمارا سال ہجری سال ہے جو محرم سے شروع ہوتا ہے” یہ کہنا خلوص پر مبنی ہو سکتا ہے لیکن دو وجوہات کی بنا پر یہ مناسب نہیں

پہلی وجہ یہ ہے کہ شریعت نے نئے سال کی ابتدا کو مبارکباد یا دعا کے لیے کوئی خاص موقع قرار نہیں دیا دین سمجھ کر ایسا کرنا یا معمول بناکر ایسا کرنا، خواہ محرم کے آغاز پر ہی کیوں نہ ہو، بدعت اور گمراہی کا سبب ہے اگر ایسا مستقل معمول نہ بنایا جائے تو یہ بدعت نہیں، لیکن پھر بھی لغو اور لاحاصل کام ضرور ہے، اور لغو کام سے بچنا ہر سچے مومن اور سمجھدار انسان کے لیے ضروری ہے

دوسری وجہ یہ ہے کہ اسلام میں قمری مہینے کی اہمیت ہے کیونکہ رمضان کے روزے، عید الفطر، حج کے ایام، اور زکوة کے حساب کتاب کا تعلق قمری مہینوں سے ہے لیکن یہ بھی ذہن میں رہے کہ جس طرح چاند اللہ کی مخلوق ہے، اسی طرح سورج بھی اللہ کی مخلوق ہے قرآن و سنت کے متعدد نصوص سے پتا چلتا ہے کہ دونوں اللہ کی قدرت کی نشانیاں ہیں اس لیے سال اور کیلنڈر چاہے چاند سے وابستہ ہو یا سورج سے، دونوں ہمارے ہیں

ہجری کیلنڈر کے تئیں مسلمانوں کی غفلت ایک حقیقت ہے مسلمانوں کی بڑی تعداد کو ہجری مہینوں کے نام بھی یاد نہیں، حالانکہ اسلام کی بہت ساری عبادتیں ہجری کیلنڈر سے وابستہ ہیں
رمضان المبارک، جو ہجری کیلنڈر کا نواں مہینہ ہے، میں روزہ رکھنا فرض ہے
شوال کی پہلی تاریخ کو عید الفطر ہوتی ہے
ذی الحجہ کے مہینے میں حج اور عید قرباں ہوتی ہے
ہر ہجری مہینے کی تیرہ، چودہ، اور پندرہ تاریخ کو روزہ رکھنا مسنون ہے
محرم میں نو اور دس یا دس اور گیارہ تاریخ کو روزہ رکھنا مسنون ہے

ان کے علاوہ زکوة کے حساب کتاب اور عدت کے معاملات میں بھی ہجری کیلنڈر کی ضرورت پڑتی ہے

شمسی کیلنڈر کی تاریخیں بالکل متعین ہوتی ہیں، چنانچہ سفر کی بکنگ جیسے معاملات میں یہ سہولت فراہم کرتا ہے اس لیے ان معاملات میں شمسی کیلنڈر کا استعمال شرعی طور پر جائز ہے

قمری کیلنڈر کو شرعی احکامات کا مدار رکھنے کی کئی حکمتیں ہیں
دنیا کے بعض خطوں میں چھ مہینے سورج طلوع اور چھ مہینے غروب رہتا ہے، لیکن چاند نارمل طور پر نکلتا اور ڈوبتا ہے، جس سے حساب آسان ہو جاتا ہے
قمری مہینے موسم کے تعین سے آزاد ہیں، اس لیے رمضان اور حج جیسے اہم مہینے ہر موسم میں آتے ہیں

اسلامی عبادات کے لیے قمری کیلنڈر کا انتخاب اللہ تعالیٰ کی حکمت اور انصاف کا مظہر ہے چاند اور سورج دونوں اللہ کی مخلوقات ہیں اور اللہ کی نعمتیں ہیں اس لیے یہ کہنا درست نہیں کہ شمسی کیلنڈر غیر اسلامی ہے

Share