لڑکیوں کے مکاتب کی اہمیت و ضرورت

مولوی شبیر عبدالکریم تانبے، کرجی۔کھیڈ

ماں کی گود کو بچہ کا پہلا مدرسہ کہا جاتا ہے، اس لئے ماں کا بااخلاق، دیندار اور دینی تعلیم و تربیت سے آراستہ ہونا ضروری ہے۔ تب ہی وہ اپنے گھر اور اپنی اولاد کی دینداری کی فکر کرے گی۔ عام طور پر نکاح کے لئے عورت کا دنیاوی و عصری تعلیم یافتہ ہونا ہی کافی سمجھا جاتا ہے اور اسی کو ترجیح دی جاتی ہے، لیکن اس کی دینداری اور دینی تعلیم سے واقف ہونے کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی اور نہ ہی اس کی فکر کی جاتی ہے۔ اس لئے آج لڑکیوں کے دینداری کے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ اس لیے آج کے اس فتنہ و فساد اور بگاڑ کے دور میں ہر گاوں اور ہر محلے میں لڑکیوں کے مکاتب کا قائم ہونا بہت ضروری ہے۔

جن علاقوں میں مستقل طور پر طعام و قیام کے ساتھ لڑکیوں کے مدارس قائم ہیں، وہاں کے ذمہ دار حضرات کو بھی قرب و جوار کی بستیوں میں لڑکیوں کے لئے مکاتب قائم کرنے کی فکر کرنی چاہئے۔ اس لئے کہ مدارس میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے مخصوص طبقہ ہی آتا ہے اور یہ مدارس بھی قوم و ملت اور امت کے جانی و مالی تعاون سے ہی چلتے ہیں۔ اس لئے مدارس کے ساتھ عمومی اعتبار سے بھی امت کی فکر کرنا ان کی ذمہ داری ہے۔

اسی طرح تقریباً ہر تعلقے میں انجمن درمندان تعلیم و ترقی جیسے ادارے موجود ہیں، جو عوام ہی کے تعاون سے عوام کی فلاح و بہبود کے لئے قائم کئے گئے ہیں اور ان کے مقاصد میں تعلیم بھی شامل ہے۔ اس لئے انہیں بھی اپنے اپنے تعلقے کی بستیوں میں لڑکیوں کے مکاتب و مدارس قائم کرنے کی فکر کرنی چاہئے، چاہے وہ مدارس و مکاتب مستقل طعام و قیام کے ساتھ ہوں یا پھر عارضی و جزئی طور پر ہوں۔ ان مدارس و مکاتب میں بااخلاق، باصلاحیت، محنتی اور فکرمند معلمات کا تقرر کرنا چاہئے تاکہ امت کو زیادہ سے زیادہ فائدہ ہو اور امت کی ماوں اور بہنوں کے اندر دینداری اور دینی تعلیم کا شوق و ذوق پیدا ہو جائے۔ وہ صحیح طور پر تجوید کی رعایت کے ساتھ قرآن پاک کی تلاوت کر سکیں، وضو، نماز، غسل کے ساتھ دیگر اہم اور ضروری مسائل سے واقف ہو سکیں۔ اس لئے کہ آج سب سے اہم مسئلہ لڑکیوں کی تعلیم و تربیت کا ہے۔ علماء کرام اور اہل علم حضرات کو اس طرف توجہ کرنی چاہئے اور اس کی فکر کرنی چاہئے۔

آج دوسری ریاستوں والے اپنے علاقے میں لڑکیوں کے لئے آن لائن مکاتب و مدارس چلا رہے ہیں اور ان میں تجوید کے تفصیلی قواعد کے ساتھ ناظرہ قرآن، حفظ، سورت، تفسیر و دیگر مسائل بھی پڑھا رہے ہیں۔ ہمارے علاقے کی سیکڑوں لڑکیاں اور عورتیں اس سے جڑی ہوئی ہیں اور تعلیم حاصل کر رہی ہیں، لیکن ہم اپنے علاقے کی لڑکیوں کی دینی تعلیم و تربیت کے لئے کچھ نہیں کر پا رہے ہیں، یہ بڑے افسوس کی بات ہے۔

اس لئے کہ بیواوں اور غریبوں کے مالی تعاون، ایجوکیشن اور طبی امداد سے زیادہ اہم ان کے ایمان و اسلام کی فکر کرنا ہے اور انہیں کفر و الحاد و ارتداد اور فسق و فجور سے بچانا ہے۔ دنیاوی نفع و نقصان عارضی و وقتی ہوگا، جبکہ آخرت کا نقصان دائمی ہوگا۔ اس لئے ہر علاقے کے مدارس اور انجمنوں کے ذمہ دار حضرات کو اپنے اپنے علاقوں میں لڑکیوں کے لئے مدارس و مکاتب قائم کرنے کی فکر کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں قوم و ملت کی خدمت کا جو موقع دیا ہے، اس کا صحیح استعمال کرنا چاہئے، ورنہ اللہ تعالیٰ ہماری جگہ کسی اور کو کھڑا کرے گا، کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی کے محتاج نہیں ہیں۔

اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے۔

Share