جلگاؤں: ان دنوں اردو پر گویا موسم بہار آیا ہوا ہے۔ جہاں جہاں نظر جاتی ہے، وہاں وہاں یہ خوبصورت لباس زیب تن کیے دکھائی دیتی ہے۔ جشنِ اُردو، جشنِ بچپن، رشکِ بہاراں جیسے درجنوں پروگرام ملک کے طول و عرض میں انعقاد پذیر ہو کر اردو کی مقبولیت کا احساس جگا رہے ہیں۔ خواب، کتاب اور بچے اس موضوع پر قومی اردو کونسل برائے فروغ اردو زبان نے بھی خلافت ہاؤس ممبئی میں گزشتہ دنوں بچوں کی کہانی نگاری پر ایک پرمغز ورکشاپ کا انعقاد کیا۔ اس کے لیے کونسل نے شخصیات کی ان کہی کہانیاں، ثقافت اور وراثت اور سائنس فکشن ان تین موضوعات پر کہانی کے ساتھ قلمکاروں کو مدعو کیا تھا۔ خلافت ہاؤس میں متوازی طور پر گل بوٹے کا جشنِ بچپن اور کونسل کا ورکشاپ ایک منفرد و مثالی تاثر پیش کر رہے تھے۔ کونسل کے قلمکاروں کی کہکشاں اور گل بوٹے کے مہمانوں کی جھرمٹ نے ماحول میں اردو کی خوشبو بکھیر دی تھی۔
اس موقع پر قومی اردو کونسل کے ڈائریکٹر جناب شمس اقبال نے اپنے استقبالیہ خطاب میں کہا کہ جب ہم تعلیم یافتہ سماج کی بات کرتے ہیں تو اس کا اہم پہلو بچے اور نوجوان ہیں، جو سماج کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ ان کی تربیت اور تعلیم ہماری ذمہ داری ہے۔ کونسل نے اسی مقصد کے تحت اردو کے اہم قلمکاروں کو مدعو کیا۔
ورکشاپ کے پہلے تکنیکی سیشن میں شاہ تاج خان نے پرپل ڈے، ایم مبین نے اے آئی اسکول، اقبال برکی نے محبت، اقبال نیازی نے لیزم، اور مشتاق کریمی نے ایک ان کہی کہانی کے عنوان سے کہانیاں سامعین کے گوش گزار کیں، جن پر ماہرین نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ مثبت پہلوؤں پر روشنی ڈالی اور منفی گوشوں کو اجاگر کیا۔
دوسرے سیشن میں محمد اسلم پرویز نے چاول کے دو دانے، آفتاب حسنین نے دادا صاحب پھالکے، فرحان حنیف وارثی نے ریان کا سورج اور نانی، صادقہ نواب سحر نے ممبئی کا میوزیم اور شجاع الدین شاہد نے ہمت مرداں کے عنوان سے کہانیاں پیش کیں۔ ان کہانیوں کی پذیرائی بھی ہوئی اور ان پر رہنمائی بھی کی گئی۔ اس ورکشاپ میں ماہر ڈاکٹروں نے کہانیوں کا پوسٹ مارٹم کیا۔ فن کو نکھارنے کی یہ کسوٹی کسی فن پارے کو شاہکار بنا دیتی ہے۔
جس محفل میں اقبال نیازی، اسلم پرویز، انور مرزا، آفتاب حسنین، شاہ تاج خان، شاداب رشید اور خاکسار موجود ہوں، وہاں مصلحت و مروت کی دیواریں از خود گر ہی جاتی ہیں۔ اس میں مختلف اسکولوں کے طلبہ اور طالبات کی شرکت و عملی شمولیت نے بھی جان ڈال دی۔ انھوں نے بھی کہانیوں پر کھل کر اپنی بات رکھی۔
آخری سیشن کا آغاز محترمہ شمع کوثر یزدانی (اسسٹنٹ ڈائریکٹر اکیڈمک) کے استقبالیہ کلمات سے ہوا۔ انھوں نے ورکشاپ کے ماحصل پر روشنی ڈالی۔ اس سیشن میں کل تین کہانیاں پیش کی گئیں۔ انوار مرزا نے آزاد، عزیز اللہ شیرانی نے راجو اور شیرا، اور اسماعیل سلیمان نے روشنی کے عنوان سے کہانیاں سنائیں، جن پر موجود ماہرین اور اسکولی بچوں نے اپنے تاثرات کا اظہار کیا۔
جمع، نفی کے اعمال بھی ہوئے اور ضرب و تقسیم کے اشارے بھی ملے۔ ورکشاپ میں چھوٹے بچوں نے جس اعتماد اور بیباکی سے کہانیوں پر سوالات قائم کیے، یقیناً وہ دلچسپ اور حیران کن تھے۔ اس سے قلمکاروں کو سمجھنے کا موقع ملے گا کہ آج کے بچوں کی نفسیات اور ان کے شعور و ادراک کی سطح کیا ہے۔
اس موقع پر مقررین نے مزید کہا کہ قومی اردو کونسل کا یہ خوشگوار تجربہ نئے تخلیق کاروں کی تربیت کے ساتھ بچوں کے لیے ایسا مواد تیار کرنے میں مددگار ثابت ہوگا جو دیگر زبانوں کے مقابل رکھا جا سکے۔
ورکشاپ کے تینوں دن خلافت اسکول، کالج کے علاوہ ممبئی کے مختلف اسکولوں اور کالجوں کے طلبا و طالبات بھی موجود رہے، جنھوں نے کھل کر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
ورکشاپ کا اختتام نہاں رباب (ریسرچ اسسٹنٹ) کی رسمِ شکریہ پر ہوا۔ جناب حقانی القاسمی کی سادہ لوح طبیعت کو مہانگر کی فضا راس نہیں آئی۔ انھیں اسپتال داخل کرنا پڑا۔ وہاں سے بھی موصوف قلمکاروں کی خیریت دریافت کرتے رہے۔ اسسٹنٹ ایڈیٹر عبدالباری ان کی تیمارداری کے ساتھ اپنی ذمہ داری بھی نبھاتے رہے۔
جناب سرفراز آرزو عملی طور پر ہر دو تقریبات میں بڑے سرگرم نظر آئے۔ جناب خورشید صدیقی اور عطا الرحمن طارق بھی موجود رہے۔