ہنی بیماریوں کا علاج ۔ شرمندگی نہیں، ضرورت

زندگی کا سفر اکثر ہمیں ان گہرائیوں میں لے جاتا ہے جہاں دماغ کی پیچیدگیاں، انسانی احساسات، اور معاشرتی رویے آپس میں الجھ جاتے ہیں۔ ذہن، جو انسانی جسم کا سب سے طاقتور اور پیچیدہ حصہ ہے، بعض اوقات ایسے مسائل کا شکار ہو جاتا ہے جنہیں نظرانداز کرنا ہماری عادت بن چکی ہے۔ ہم بخار، دل کی بیماری یا ذیابیطس کے لیے تو فوراً ڈاکٹر سے رجوع کرتے ہیں، لیکن جب دماغی مسائل کی بات آتی ہے، تو یا تو انہیں معمولی سمجھ کر نظرانداز کیا جاتا ہے یا پھر عاملوں کے چکر لگائے جاتے ہیں۔ ذہنی امراض کو بڑی شرم کی بات سمجھا جاتا ہے۔ یہ وہ رویہ ہے جس نے ہمارے معاشرے کو ذہنی بیماری جیسے اہم مسئلے سے آنکھیں چرانی سکھا دی ہیں۔

حالیہ دنوں میں ایک ایسا واقعہ سامنے آیا جو معاشرتی لاعلمی کی واضح مثال ہے۔ ایک خاندان کے نوجوان کو اچانک عجیب و غریب خیالات آنے لگے، اس کا رویہ بدلنے لگا، اور وہ ایسی باتیں کرنے لگا جو سب کو غیر معمولی لگیں۔ پہلے تو سب نے اسے مذاق سمجھا، پھر یہ سوچ کر ڈرنے لگے کہ شاید یہ کسی “آسیب” یا “جادو” کا اثر ہے۔ کئی دن عاملوں اور باباؤں پر ضائع کر دیے گئے، لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا۔ آخرکار، کسی نے سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں ماہر نفسیات سے رجوع کرنے کا مشورہ دیا۔ تشخیص ہوئی کہ یہ شیزوفرینیا کا معاملہ ہے، اور پھر صحیح علاج سے مریض کی حالت بہتر ہونے لگی۔

یہ واقعہ صرف ایک کہانی نہیں بلکہ ایک آئینہ ہے جو ہمارے سماجی رویوں کی حقیقت دکھاتا ہے۔ ذہنی صحت کے مسائل کو یا تو مذاق بنا دیا جاتا ہے یا اتنا شرمناک سمجھا جاتا ہے کہ لوگ ان کے بارے میں بات کرنے سے بھی گھبراتے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ایسے رویے صرف بیماری کو بڑھاوا دیتے ہیں، اور کبھی کبھی یہ حالات جان لیوا بھی ہو سکتے ہیں۔ خودکشی کے بڑھتے رجحانات ذہنی بیماریوں کا سب سے خطرناک نتیجہ ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا:
“وَلَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا” (النساء: 29)۔

یہ آیت ہمیں خودکشی کے گناہ ہونے کے ساتھ ساتھ اس بات کی یاد دہانی کراتی ہے کہ اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ خودکشی کے خیالات عام طور پر مایوسی، تنہائی، یا زندگی کی مشکلات سے پیدا ہوتے ہیں، لیکن یہ خیالات وقتی ہوتے ہیں اور مناسب مدد سے ان پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ ایسے افراد کو نہ صرف ہمدردی کی ضرورت ہوتی ہے بلکہ فوری مدد اور علاج کی بھی ضرورت ہے۔

ذہنی امراض کی وجوہات کو سمجھنا ضروری ہے، کیونکہ ان مسائل کو حل کرنے کا راستہ انہی وجوہات سے ہو کر گزرتا ہے۔ جدید دور کی تیز رفتار زندگی، بڑھتی ہوئی مسابقت، غیر یقینی معاشی حالات، اور سماجی دباؤ ذہنی صحت پر گہرا اثر ڈالتے ہیں۔ لوگ زیادہ سے زیادہ کامیابی کی دوڑ میں اپنی جذباتی اور نفسیاتی صحت کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔ بچپن میں ہونے والے صدمات، والدین کے جھگڑے، بدسلوکی، یا توجہ کی کمی، زندگی بھر کے نفسیاتی مسائل کا باعث بن سکتے ہیں۔ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ ذہنی مسائل کا علاج ممکن ہے۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
“اللہ نے کوئی بیماری نہیں اتاری مگر اس کے ساتھ علاج بھی اتارا ہے۔” (صحیح بخاری)۔

یہ حدیث ہمیں اس بات کی تلقین کرتی ہے کہ بیماریوں کا، چاہے وہ جسمانی ہوں یا دماغی، علاج ڈھونڈنا اور کرنا ہمارا فرض ہے۔

ماہرین نفسیات اس مسئلے کے حل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کا کام مریض کو سمجھنا اور اس کے لیے مناسب علاج فراہم کرنا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ، مریض کے قریب موجود لوگوں کو بھی اس کا ساتھ دینا ہوگا۔ ہمدردی، تعاون، اور حمایت ان کے لیے وہ پل ہیں جو انہیں دوبارہ زندگی کی طرف لے جا سکتے ہیں۔ معاشرتی سطح پر ذہنی صحت کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات اٹھانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ آگاہی کیمپ، ورکشاپس، اور ذہنی صحت سے متعلق معلومات کی فراہمی اس مسئلے کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ لوگوں کو یہ بتانا ہوگا کہ ذہنی مسائل کو قبول کرنا اور ماہرین سے رجوع کرنا کسی قسم کی شرمندگی نہیں بلکہ جراتمندی کی علامت ہے۔

اپنی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے، ہر فرد کو اپنی ذہنی صحت پر توجہ دینی چاہیے۔ متوازن غذا، روزانہ ورزش، وقت پر نمازوں کا اہتمام اور ذہنی سکون کے لیے وقت نکالنا ضروری ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
“أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ” (سورہ الرعد: 28)

ذہنی دباؤ اور پریشانی میں ذکرِ الٰہی انسان کو سکون عطا کرتا ہے۔ دوسروں کے ساتھ وقت گزارنا، اپنے جذبات کا اظہار کرنا، اور مثبت سرگرمیوں میں حصہ لینا بھی ذہنی صحت کو بہتر بنا سکتا ہے۔ ہمیں اپنے روایتی خیالات کو بدلنا ہوگا۔ ذہنی صحت کو شرمندگی یا خاموشی کی بجائے ایک حقیقت کے طور پر قبول کرنا ہوگا۔ اگر ہم سب مل کر اپنی سوچ اور رویوں میں تبدیلی لائیں، تو معاشرہ میں ذہنی صحت کو اتنی ہی اہمیت دی جائے گی جتنی جسمانی صحت کو دی جاتی ہے۔ زندگی اللہ کا ایک انمول تحفہ ہے، اور اس کی حفاظت نہ صرف جسمانی بلکہ ذہنی سکون کے ذریعے بھی ضروری ہے۔

Share