یومِ جمہوریہ

نیاز جَیراجپُوری

بابِ ہندوستاں کی نُمایاں سطر یومِ جمہوریہ
قیدِ شب سے رِہا ایک روشن سحر یومِ جمہوریہ
خیمۂ گُل کی سمت اِک مسلسل سفر یومِ جمہوریہ
جگمگاتے چراغوں بھری رہگُزر یومِ جمہوریہ

ہر قدم مُشکلیں ہوں سفر میں یا سَر پر کڑی دُھوپ ہو
رہ میں سایہ فگن اِک کھنیرا شجر یومِ جمہوریہ

قدر اِسکی کرو خوبصورت بھی ہے بیش قیمت بھی ہے
کوکھ میں سیپ کی پَلنے والا گوہر یومِ جمہوریہ

راہِ احساس میں فصلِ گُلبار کی طرح سایہ فگن
اور مانندِ رقصِ شرر موم پر یومِ جمہوریہ

دیپ دُشمن ہَواؤں سے محفوظ ہو تو مِلے روشنی
کہنے آتا یہی ہر برس لَوٹ کر یومِ جمہوریہ

حوصلے ولولے کوششیں ساتھ ہوں تو ہر اِک موڑ پر
بارشِ تیرگی سے دِلا دے مفر یومِ جمہوریہ

ایک پَیغام خوشحالیوں اور آزادی کا ہے مگر
غور و فِکر و تجسُّس کی بھی اِک خبر یومِ جمہوریہ

خُشک و تَر میں ہو عزم و یقیں ہمسفر تو نظر آتا ہے
بارشِ تیرگی میں چمکتا قمر یومِ جمہوریہ

ذہن و دِل میں یہی اِک سوال اُٹھتا ہے آندھیوں کی طرح
کب مِٹائے گا یہ فرقِ زیر و زبر یومِ جمہوریہ

ہو اِرادہ اگر منزلوں تک پہنچنے کا ہر حال میں
کرتا ہے رہنمائی ہر اِک موڑ پر یومِ جمہوریہ

اے نیازؔ آرزو اور دُعا ہے یہی کہ مِرے دیش میں
بس سجاتا رہے بزمِ شمس و قمر یومِ جمہوریہ

Share