ڈاکٹر من موہن سنگھ

اردو ادب کے عاشق

اس ملک کی آزادی کے بعد اب تک جتنے وزیر اعظم گذرے ہیں، ان میں من موہن سنگھ کا نام سب سے نمایاں ہے۔ لوگوں میں سب سے زیادہ مقبول اور سب کے محبوب یہی وزیر اعظم ہیں۔ ایک طرف ان کے اپنے ثنا خواں ہیں، تو دوسری طرف ان کے مخالفین بھی ان کے کارناموں اور اوصاف کے گیت گا رہے ہیں۔ ان اوصاف میں اردو ادب سے دلچسپی اور اردو سے محبت ان کی زندگی کا ایک درخشاں باب ہے۔ “زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھو” کے مصداق ڈاکٹر من موہن سنگھ کی زندگی کے نقوش نہ صرف لوگوں کی زبان زد ہیں بلکہ دلوں پر بھی ثبت ہیں۔

واقعتاً ڈاکٹر من موہن سنگھ ایسے ہی تھے کہ اگر ان کی زندگی کا گہرائی سے نہیں بلکہ سرسری بھی مطالعہ کیا جائے، تو یہ بات بہت جلد واضح ہو جائے گی کہ ڈاکٹر من موہن سنگھ ایک تاریخ ساز شخصیت تھے، بہت سی خوبیوں کے مالک تھے، اقتصادیات اور معاشیات کے ماہر تھے۔ پوری دنیا جب معاشی اعتبار سے بھنور میں پھنسی ہوئی تھی، تو ہندوستان کی معاشی کشتی کو غرقاب ہونے سے بچانے والے یہی من موہن سنگھ تھے۔ ان کے ان کارناموں کے چرچے ان کی زندگی میں بھی خوب ہوئے لیکن ان کے انتقال کے بعد سب سے زیادہ چرچا اسی کامیابی کا ہے۔

ڈاکٹر من موہن سنگھ کی شخصیت کا ایک نمایاں پہلو ان کی اردو زبان اور ادب سے گہری محبت تھی۔ وہ اردو کو صرف ایک زبان نہیں بلکہ ہندوستان کے ثقافتی ورثے کا ایک اہم جزو سمجھتے تھے۔ اپنے دور حکومت میں انہوں نے اردو کی بقاء اور ترویج کے لئے بہت اقدامات کئے۔ انہوں نے غالب، اقبال، اور میر کے اشعار کو اپنی تقاریر میں استعمال کرکے یہ ثابت کیا کہ ادب اور سیاست ایک دوسرے سے جدا نہیں ہیں بلکہ ایک دوسرے کے معاون ہو سکتے ہیں۔ ان کی تقاریر کو اکثر اردو رسم الخط میں تیار کیا جاتا تھا، جو اردو زبان کی اہمیت پر ان کے یقین کی علامت تھی۔

اسی طرح وزیر اقلیت اور سچر کمیٹی کے قیام کا سہرا بھی انہی کے سر سجتا ہے۔ بظاہر ایک خاموش رہنے والے شخص نے جب اس ملک کی باگ دوڑ سنبھالی اور ملک کے خزانے پر نگران اور وزیر متعین ہوئے، تو انہوں نے شفافیت کے ساتھ ملک کے مقدر میں ترقی کی ایسی لکیر کھینچی جسے زمانہ یاد رکھے گا۔

نیز انہوں نے اس عظیم منصب کا استعمال جس انداز سے ملک کی ترقی کے لئے کیا، وہ موجودہ اور مستقبل میں اس منصب پر براجمان ہونے والے افراد کے لئے مشعل راہ ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اہل سیاست کو ڈاکٹر من موہن سنگھ کی نہ صرف سیاسی بلکہ غیر سیاسی زندگی سے بھی سبق لینا چاہیے تاکہ ڈاکٹر من موہن سنگھ کی طرح ہر سیاسی لیڈر “ڈھونڈو گے مجھے میرے بعد” کے مصداق بن سکے اور ملک کی ترقی میں اپنا نام شامل کر سکے۔

Share