دُكھیا

عورت شجر انسانیت میں برگ و بار پیدا کرنے کی موجب اور نسل انسانی کو زندہ رکھنے اور آگے بڑھانے کا ذریعہ ہے۔ یہ کسی عظیم دانشور کے قول کے مصداق ان اشجار انسانی کی خاطر خواہ پرورش اور نشوونما، تنومندی، تعلیم و تربیت، آداب و اخلاق کا درس دینا والدین کا اولین فرض بنتا ہے تاکہ وہ اپنی آنے والی زندگی خوشگوار گزار سکیں۔ زندگی کا یہ معاملہ Kids Having Born Kids کا سلسلہ تا ابد چلنے والا ہے۔

اگر مرد اور عورت کے فرائض پر نظر ڈالیں تو عورت بظاہر دُكھیا نظر آئے گی۔ یہ باوفا، پیکر خلوص، ہمدردی اور وفاشعاری کے ہوتے ہوئے ڈانٹ ڈپٹ اس کا مقدر سا بن جاتا ہے۔ بیٹی کے روپ میں اسے صبح شام گھر بار کی صفائی، ہنڈی برتن مانجھنے، کپڑے دھونے، سب کو کھانا کھلا کر بستر لگانے اور گھر کے ہر فرد کی ضرورت کا خیال رکھنے وغیرہ سے فرصت نہیں ملتی۔ شادی کے بعد جب ماں بن جاتی ہے تو اور جھمیلے بڑھ جاتے ہیں۔ جن میں قانون فطرت کے مطابق ماں کے طور پر بچے کو تکلیف کے ساتھ پیٹ میں رکھنا، بڑی تکلیف کے ساتھ جنم دینا اور مہینوں شیرو صالح خون (دودھ پلانا)، صاف صفائی کرنا لازمی ہوتا ہے۔ کچھ شوہر نامدار ساتھ ہوتے ہوئے بھی اپنی شریک حیات کا ہاتھ بٹانے اور ان سہاگ کے پھولوں کی صفائی اور دیکھ بھال کرنا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں، حالانکہ خود کی صفائی کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہوتی۔

دراصل، اسے روایتی شان اور مردانہ برتری کہنا غلط نہ ہوگا، حالانکہ قرآن و سنت کی روشنی میں عورتوں کو بھی معروف طریقے پر ویسے ہی حقوق حاصل ہیں جیسے مردوں کے حقوق عورتوں پر ہیں۔ آپؐ کا پھٹے پرانے کپڑے ٹانکنا، کپڑے دھونا اور دیگر کاموں میں ہاتھ بٹانے کے بیشتر شواہد ملتے ہیں۔ “اور تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنی عورتوں کے لئے سب سے اچھا ہے”۔

بعض اوقات چھوٹی چھوٹی باتیں بڑی غلط فہمیوں کا سبب بن جاتی ہیں۔ حالانکہ شادی کے بعد بیٹیاں اپنے ماں باپ، بھائی بہن کو چھوڑ کر بڑے ارمانوں اور سنہرے خواب سجائے سسرال داخل ہوتے ہی اس نئے، اجنبی اور پرائے لوگوں سے اٹوٹ رشتہ استوار کرکے ساس، سسر، دیور، نند کو بالترتیب ممی، امی جان، ابا، ابو، بھائی جان، آپی، بہن جان وغیرہ حقیقی ماں باپ اور بھائی بہن کا درجہ دے کر نوازتی ہیں اور ان کی حتی الامکان خدمات بجا لانے سے نہیں تھکتی۔ مگر قسمت آوری کہ معمولی رنجش اور غلط فہمی سے سارے ارمانوں پر پانی پھرنے میں دیر نہیں لگتی۔ چنانچہ اس آپس کی بے رخی، دوری، دل آزاری اور گھٹن میں شجر انسانی سے جنم لینے والے بچے کا نفسیاتی طور پر نحیف، ذہنی کمزور، ڈرپوک وغیرہ پیدا ہونا بنیادی اسباب ہوتے ہیں۔

غالباً اس کا دوسرا اور اہم پہلو خلاف توقع لڑکی والوں سے معیاری صوفہ سیٹ، کنگ سائز دیوان بیڈ، گوڈریج الماری، جدید قسم کا فارمیکا ٹیبل مع کشن، کرسیاں، نان اسٹک کوکنگ برتن، کروکری (کانچ کے برتن) وغیرہ کی کمی بیشی ہوسکتی ہے۔ خدانخواستہ نئی اور جدید قسم کی موٹر کار، موٹر بائیک وغیرہ کا مطالبہ کرتے نہ پھریں، جس کے ردعمل میں غریب اور اوسط گھروں کی مجبور لڑکیاں زندگی بھر ازدواجی زندگی کے لئے ترستی اور سسکتی نہ رہیں۔ چونکہ اس کا تریاق ہفتہ روزہ کوکن کی آواز کی اجتماعی شادیوں کے تحت قابل صد ستائش ہے۔ اس کا دائرہ عمل تحصیل کے چھوٹے بڑے شہروں تک پھیلانے سے اور بھی فروغ حاصل ہوگا۔

روایتی، سماجی اور فردی قسم کے رسم و رواج میں لڑکیوں کا فلانا شعبہ میں اعلیٰ تعلیم لینا، پولیس اور دیگر کریئر اپنانا معیوب گرداننا، بولنے، چلنے، پھرنے، لباس کے رکھ رکھاؤ اور بال وغیرہ سنوارنے پر پابندیاں، یہ وہ نہ کرنے پر حلال و حرام کی قید بچیوں میں احساس کمتری، دل آزاری اور بہت حد تک خود اعتمادی کو بھی مجروح کردیتی ہے۔ البتہ اچھے طریقے سے رہنا، عزت و عفت کی زندگی بسر کرنا، یہ ہدایات کرنا کارآمد اور حوصلہ مندانہ ہوتی ہیں۔

چونکہ بدلتے ہوئے حالات میں لڑکے ہوں یا لڑکیاں انہیں اعلیٰ تعلیم یافتہ بنانا وقت کا تقاضا ہے تاکہ وہ آنے والی زندگی میں خود کفیل رہیں۔ ممکن ہے حالیہ عرب اسرائیل دوستی سے گلف میں کافی تبدیلیاں رونما ہوسکتی ہیں۔ جن میں خدانخواستہ ہمارے زیر ملازمت بھائیوں پر کوئی برا اثر نہ پڑے۔ جس کی خاطر ہمارے کئی کوکنی مسلم بھائی اپنی قسمت آزمائی میں مقامی سرکاری اور نیم سرکاری نوکریاں مع فنڈس اور پینشن کوارٹرس وغیرہ اسکیموں کو چھوڑ کر گلف کا رخ کرچکے تھے۔ لہٰذا وہ گزشتہ چار تا پانچ دہائیوں میں کہاں تک کامیاب ہوئے ہیں، اس سے ہر کوئی واقف ہوگا۔

مزید تفصیلات کے لئے مضمون کو جاری رکھیں۔

Share