اگر دینِ اسلام کے احکامات پر غور کیا جائے اور ان میں پنہاں اسباق اور حکمتوں پر نظر کی جائے تو معلوم ہوگا کہ اسلام کا ہر رکن اور ہر حکم پورے معاشرے کی اصلاح اور انسانی انفرادی و اجتماعی کامیاب زندگی حاصل کرنے کے لیے کافی ہے۔ مثلاً اسلام کا ایک بڑا فرض رمضان المبارک کے روزے ہیں۔ اگر ان روزوں کا پیغام اور حکمتیں ہمارے سامنے ہوں تو ایک طرف ہماری انفرادی زندگی صحت مند اور پر سکون ہوگی، تو دوسری طرف ایک تندرست اور جذبۂ ایثار و قربانی پر استوار معاشرہ جنم لے گا۔ ایک ایسا معاشرہ جس کا ہر فرد دوسرے کی تکلیف کو اپنی تکلیف محسوس کرے گا، جس کے افراد میں اخوت اور بھائی چارگی عام ہوگی، اور وہاں کے لوگ خودغرض نہیں بلکہ ہمدرد اور خیرخواہ ہوں گے۔ الغرض روزہ کا مقصد صرف کھانا پینا ترک کرنا نہیں، بلکہ اس میں بیشمار حکمتیں، اسباق اور پیغامات پوشیدہ ہیں، جنہیں ذیل میں اختصار کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔
دوسروں کی تکلیف محسوس کرنا
بھوک کی تکلیف کیسی ہوتی ہے؟ فاقے سے رات بسر کرنے کی اذیت کیا ہے؟ چھوٹے معصوم بچوں کو بھوک سے بلکتے دیکھنا، کھانا طلب کرتے ہوئے ان کے آنسو دیکھنے اور ان کی آہیں سننے سے کس طرح سینے پر برچھی لگتی ہے؟ اپنی اولاد کو خالی پیٹ نڈھال دیکھنا کتنا اذیت ناک ہے؟ دوسروں کی حقارت سے دی گئی خیرات لینا کتنا تکلیف دہ ہوتا ہے؟ اس کا اندازہ وہ شخص کبھی نہیں لگا سکتا جو ہر وقت شکم سیر رہے اور جس کو ہر وقت پیٹ بھر کر کھانا ملے۔
اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو روزے کا حکم دیا۔ انھیں صبح صادق سے غروبِ آفتاب تک بھوکا پیاسا رہنے کا حکم دیا اور ایسا صرف ایک دو دنوں کے لیے نہیں بلکہ پورا مہینہ اس طرح کرنے کا حکم دیا، تاکہ ہمیں دوسروں کی بھوک و پیاس کا احساس ہو، ان کی تکلیف سمجھنے کی صلاحیت پیدا ہو، کسی بھوکے پیاسے شخص کو دیکھ کر ہمیں اپنا بھوکا اور پیاسا ہونا یاد آ جائے، تاکہ اس کی مدد اور تعاون کرنے میں آسانی ہو اور ہم شکم سیری کی وجہ سے خودغرض اور بے حس نہ بن جائیں۔
صحابۂ کرامؓ کی حیات پر نظر کرنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وہ روزے کی حالت میں بھی خوب صدقہ و خیرات اور غرباء و مساکین کی مالی مدد کرتے تھے اور کسی سائل اور ضرورت مند کو خالی ہاتھ جانے نہیں دیتے تھے، چاہے اپنی افطاری کے لیے بھی کچھ نہ بچے، اور محض پانی پر روزہ افطار کرنا پڑے۔
چنانچہ ایک مرتبہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روزے سے تھیں، گھر میں ایک روٹی کے علاوہ کھانے کی اور کوئی چیز نہیں تھی۔ ایک مسکین نے آکر سوال کیا تو وہ اکلوتی روٹی بھی سائل کو دے دی۔
اسی طرح حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ نے ایک مرتبہ حضرت عائشہؓ کو ایک لاکھ درہم دیے تو اسی دن تمام درہم لوگوں میں بانٹ دیئے اور ایک درہم بھی اپنے لیے نہیں رکھا، حالانکہ وہ خود روزے سے تھیں۔
عجز و انکساری کا احساس
روزہ ہمیں تواضع اور انکساری کی عملی تربیت دیتا ہے۔ یہ خودپسندی اور تکبر سے محفوظ رکھنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ روزہ رکھنے سے انسان کو یہ تجربے اور مشاہدے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اللہ کے عطا کردہ رزق کا کتنا محتاج ہے۔
چنانچہ اس بات کا استحضار کرنے سے انسان سراپا عاجزی و انکساری بن جاتا ہے۔ اگر روزہ افطار کرنے کی دعا پر غور کیا جائے تو اس سے بھی اس بات کی طرف اشارہ ملتا ہے۔
چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ حضور ﷺ روزہ افطار کرتے وقت یہ دعا پڑھتے تھے:
اللّٰہم لَکَ صُمْتُ وَعَلٰی رِزْقِکَ أَفْطَرْتُ
ترجمہ: اے اللہ! میں نے آپ کے لیے ہی روزہ رکھا اور آپ کی روزی سے ہی افطار کیا۔
اس دعا کے ذریعے افطار کے وقت یہ بات یاد دلائی جاتی ہے کہ ہمارے پاس جو کچھ بھی ہے، وہ سب محض اللہ تعالیٰ کی عنایت اور فضل ہے، اور یہی تواضع و انکساری روزے کا ایک پیغام اور حکمت ہے۔
تحمّل اور قوتِ برداشت میں اضافہ
روزہ رکھنے کی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ اس سے انسان کی ہمت مضبوط اور قوتِ برداشت میں اضافہ ہوتا ہے۔ اپنے جذبات پر قابو رکھنا اور تکالیف پر صبر کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔
کیونکہ ایک طرف مسلمان کو روزے کی حالت میں کھانے پینے وغیرہ سے روکا گیا ہے، جس سے وہ بھوک پیاس برداشت کرتا ہے۔ دوسری طرف بھوکا پیاسا ہونے کی وجہ سے چڑچڑا پن اور غصہ پیدا ہونے کا خدشہ بھی رہتا ہے، اس لیے شریعت نے روزے کی حالت میں کسی سے نازیبا گفتگو یا لڑائی جھگڑا کرنے سے سختی سے روکا ہے۔
چنانچہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے:
وإذا کانَ یَومُ صومِ أحدِکُمْ فَلا یَرْفَثْ وَلَا یَصْخَبْ، فَإنْ سَابَّہٗ أحدٌ أَوْ قَاتَلَہٗ، فَلْیَقُلْ إنّي امرؤٌ صائم۔
ترجمہ: جب تم میں سے کسی کے روزے کا دن ہو تو وہ فحش باتیں نہ کرے اور نہ شور مچائے۔ اگر کوئی شخص اس کو برا بھلا کہے یا جھگڑا کرے تو وہ کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں۔
فضول گوئی اور چیخنا چلانا ویسے ہی ممنوع ہے، لیکن روزہ دار کو ان باتوں سے زیادہ سختی سے روکا گیا ہے تاکہ اس میں تحمل، بردباری اور مضبوط ہمت پیدا ہو، جو کہ روزے کی حکمتوں میں سے ایک اہم حکمت اور پیغام ہے۔
اللہ کی نعمتوں پر شکر
یہ بات بالکل واضح ہے کہ نعمت کی موجودگی میں اس کی اتنی قدر نہیں ہوتی، جتنی اس سے محرومی کی صورت میں ہوتی ہے۔
روزہ رکھنے سے انسان کو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا حقیقی ادراک ہوتا ہے، اور بوقت افطار انسان کا پورا وجود اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کھانے پینے کی چیزوں کے ضیاع سے بچتا ہے اور ان نعمتوں کی قدر کرنا سیکھتا ہے۔
تقوی کا حصول
روزے کی تمام حکمتوں اور اس میں پوشیدہ اسباق کا خلاصہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 183 میں دو الفاظ: ’’لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ‘‘ میں بیان کیا ہے، یعنی تقویٰ کا حصول۔
ترجمہ: اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں، جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے، تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو۔
خلاصۂ کلام
روزہ ایک بڑی عبادت ہونے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت بھی ہے، جو انفرادی صحت مند زندگی اور اجتماعی پُرسکون حیات کے لیے اہم ہے۔ بشرطیکہ شریعت میں مقرر کردہ حدود کا لحاظ کرکے روزے رکھے جائیں۔