Other

صحافت ایک مقدس امانت ہے

صحافت ایک مقدس امانت ہے، ایک ذمہ داری ہے، ایک جہاد ہے۔ یہ صرف خبریں پہنچانے کا ذریعہ نہیں بلکہ حق کی آواز بلند کرنے، ظلم کے خلاف سینہ سپر ہونے اور معاشرتی شعور کو بیدار کرنے کا ایک وسیلہ ہے۔ یہ وہ چراغ ہے جو اندھیروں میں روشنی کرتا ہے، یہ وہ طاقت ہے جو ظالموں کے قلعے ہلا سکتی ہے۔ لیکن اگر یہی صحافت اپنی ذمہ داریوں سے منہ موڑ لے، تو یہ ایک مہلک ہتھیار بن جاتی ہے جو نہ صرف معاشرت کو زخمی کرتا ہے بلکہ خود اپنے وجود کو بھی مٹانے کا سامان فراہم کرتا ہے۔

۲۵ دسمبر کے دن “کوکن کی آواز” اور “رائیگڑھ چا آواز” کے صحافیوں کے ساتھ منعقد ہونے والے ایک خصوصی نشست میں، ان ہی موضوعات پر مجھے گفتگو کا موقع ملا۔ میرے سامنے وہ تمام چہرے موجود تھے جنہوں نے اپنے قلم کو حق و انصاف کے لیے اور سماج کی اصلاح کے لیے استعمال کیا ہے۔ لیکن اس گفتگو کے دوران، دل کے کسی گوشے میں یہ سوال بار بار اٹھ رہا تھا: کیا ہماری صحافت واقعی اپنے مقصد پر قائم ہے؟ یا ہم بھی ان فتنوں کا شکار ہو چکے ہیں جنہوں نے سچائی کو گمراہ کن سرخیوں کے نیچے دفن کر دیا ہے؟

میں نے اپنی گفتگو کی ابتدا قرآن کے ایک مبارک حکم سے کی:
“يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا” (الاحزاب: 70)
یعنی، اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سیدھی اور سچی بات کہو۔ اس آیت نے ہمیں یہ درس دیا کہ ہماری زبان اور ہمارا قلم صرف حق کے لیے استعمال ہونا چاہیے۔ لیکن افسوس کہ ہم میں سے کتنے ہیں جو اس حکم کی پاسداری کرتے ہیں؟

رسول اللہ ﷺ کی زندگی ہمارے لیے صحافت کے اصول و ضوابط کا بہترین نمونہ ہے۔ آپ ﷺ نے ظلم کے خلاف، باطل کے سامنے، ہمیشہ حق بات کہی، چاہے اس کے ظاہری نتائج کچھ بھی ہوں۔ آپ ﷺ کا ہر فرمان، ہر عمل، ہمیں یہ درس دیتا ہے کہ حق کی گواہی دینا ایک مومن کی ذمہ داری ہے۔ کیا ہم ان تعلیمات کی روشنی میں اپنے عمل کا جائزہ لیتے ہیں؟ صحافیوں کی اس خصوصی نشست میں جب ان موضوعات پر بات ہو رہی تھی، تو میرے ذہن میں کئی سوالات امڈ رہے تھے۔ کیا آج کا میڈیا واقعی اس راستے پر چل رہا ہے جو رسول اللہ ﷺ نے ہمارے لیے متعین کیا تھا؟ یا ہم نے اپنی ترجیحات بدل دی ہیں؟ کیا ہم نے اپنے قلم کو حق و انصاف کے بجائے دنیاوی مفادات کے لیے وقف کر دیا ہے؟

بات یہاں ختم نہیں ہوتی۔ موجودہ دور میں، میڈیا اکثر فتنوں کا شکار ہو چکا ہے۔ جھوٹے پروپیگنڈے، نفرت انگیز بیانیے، اور مفاد پرستی کے جال میں پھنس کر، یہ صحافت کی روح کو زخمی کر رہا ہے۔ عراق پر حملے کے وقت عالمی میڈیا نے جو کردار ادا کیا، وہ ہمارے سامنے ہے۔ جھوٹے دعوے، جھوٹے الزامات، اور ایک پورے ملک کی تباہی۔ لیکن اس سے بھی زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ ہم نے اس سے کچھ نہیں سیکھا۔ آج بھی ہم صحافتی میدان میں بہت پیچھے ہیں اور میڈیا کی طاقت کو سمجھ نہیں پا رہے۔ باطل میڈیا جھوٹ کو سچ بنانے کے لیے اپنی تمام توانائیاں صرف کر رہا ہے اور ہم حالات کا رونا رو رہے ہیں۔

اسی محفل میں جب “کوکن کی آواز” کے کردار پر بات ہوئی، تو دل مطمئن ہوا کہ یہ اخبار آج بھی اپنے مقصد پر قائم ہے۔ یہ محض ایک خبرنامہ نہیں بلکہ ایک تحریک ہے، ایک مشن ہے جو حق و انصاف کے فروغ کے لیے کوشاں ہے۔ “کوکن کی آواز” نے ہمیشہ مظلوموں کی آواز بلند کی، ان کے مسائل کو اجاگر کیا، اور ان کے حل کے لیے عملی تجاویز پیش کیں۔ یہ صحافت کی اصل روح ہے، اور اسی روح کو زندہ رکھنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ہمیں گواہی کو چھپانے سے منع کیا ہے:
“وَلَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ ۚ وَمَنْ يَكْتُمْهَا فَإِنَّهُ آثِمٌ قَلْبُهُ” (البقرہ: 283)
یعنی، گواہی کو نہ چھپاؤ، اور جو اسے چھپائے گا، اس کا دل گناہ گار ہوگا۔ یہ آیت ہمیں یاد دلاتی ہے کہ حق بات چھپانا نہ صرف ایک گناہ ہے بلکہ یہ معاشرتی بگاڑ کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ ہمیں بھی اپنی تحریروں اور اپنی خبروں میں اس حکم کی پاسداری کرنی چاہیے۔

مفتی رفیق پورکر کی صدارت میں منعقد اس نشست میں، یہ عزم کیا گیا کہ “کوکن کی آواز” اور “رائیگڑھ چا آواز” ہمیشہ حق کی آواز بلند کرتے ہوئے جھوٹ، پروپیگنڈے، اور نفرت انگیزی کے خلاف سینہ سپر ہوں گے، اور معاشرے کے ان کمزور اور مظلوم طبقات کی آواز بنیں گے جنہیں کوئی سننے والا نہیں۔ یہ صحافت کی اصل روح ہے، اور یہی روح ہماری کامیابی کی ضمانت ہے۔

اجلاس کے اختتام پر، اردو و مراٹھی اخبار کے مدیرِ اعلیٰ دلدار پورکر نے صحافی حضرات سے درخواست کی کہ اپنی تحریر کو ہمیشہ اس مقصد کے لیے استعمال کریں جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے ہمارے لیے متعین کیا ہے۔ جھوٹ اور ظلم کے خلاف کھڑے ہوں، اور حق و انصاف کے فروغ کے لیے اپنی تمام توانائیاں صرف کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس ذمہ داری کو نبھانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

کوکن میں روزگار کے مواقع

ظفر احمد خان ندوی ۔کھیڈ، رتناگری

کوکن کے نوجوانوں کے لیے روزگار ایک اہم مسئلہ ہے۔ کوکنی عوام اور خاص طور پر نوجوان مقامی طور پر روزگار کے لیے ممبئی، پونے اور خلیجی ممالک کے علاوہ دیگر ممالک میں اپنا کاروبار قائم کرتے ہیں یا ملازمت کرتے ہیں۔ کوکنی نوجوان سرکاری ملازمتوں میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتے ہیں۔ یہاں کے نوجوان مختلف عہدوں پر پیچھے رہ گئے ہیں۔ اچھی طرح سے منصوبہ بندی سے تعلیم حاصل کر کے ہم ان آسامیوں پر نوکریاں حاصل کر سکتے ہیں۔

جن لوگوں کی زمین آر سی ایل پروجیکٹ کے لیے حاصل کی گئی ہے، وہ ان آسامیوں کے لیے درخواست دے سکتے ہیں۔ زمین ہارنے والوں کی شریک حیات (بیوی/شوہر)، بیٹا، بیٹی، پوتا اور پوتی بھی اہل ہیں۔ ان امیدواروں کو انتخابی عمل میں پہلی ترجیح ملے گی۔ کوکن ریلوے روٹ پر ایمپلائمنٹ ایکسچینج کے ساتھ رجسٹرڈ درست ایمپلائمنٹ ایکسچینج کارڈ رکھنے والے امیدواروں کو اس بھرتی مہم میں دوسری ترجیح ملے گی۔ مہاراشٹر، گوا یا کرناٹک میں رہنے والے امیدواروں کو ان عہدوں کے لیے تیسری ترجیح ملے گی۔

کوکن میں ایک پلان جاری ہے۔ اس پلان کے مطابق لوکل پلاننگ اتھارٹی رہائشی مکانات کے لیے 300 مربع میٹر تک کی تعمیرات کی اجازت دے سکے گی اور مقامی لوگوں کے پرانے مکانات کو بھی ریگولرائز کیا جائے گا۔ ساحلی علاقوں میں مقامی شہریوں کے لیے کمیونٹی انفراسٹرکچر کی تعمیر ممکن ہوگی۔ سوکھی مچھلی منڈی، جال کی تعمیر، ماہی گیری کے لیے ضروری کشتیوں کی مرمت اور مقامی کولی برادری کے روایتی کاروبار جیسی سہولیات کی بھی اجازت ہوگی۔

لوگ کسی کام کا ارادہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں، “کیا کہیں گے لوگ؟” اس سوچ یا شرم کے بغیر، یہ لوگ مختلف کام کرتے ہیں جیسے پینٹنگ، آم کے باغات کی دیکھ بھال، سڑکوں کے کام، تعمیراتی مقامات، ماہی گیری کی کشتیوں پر ملاح، بیکری مصنوعات، راجستھانی ہوٹل، ٹائر پنکچر وغیرہ۔ ان میں سے زیادہ تر لوگ چند سالوں میں کوکن میں زمین خریدتے ہیں، اپنے گھر بناتے ہیں، اور باغبانی کر کے کوکن میں آباد ہو جاتے ہیں۔ یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ اس کے پیچھے ان کی محنت ہے، لیکن یہ تمام نوکریاں ہمارے کوکنی بھومی پتروں کی تھیں۔ انہوں نے یہ نوکریاں ہڑپ نہیں کی ہیں بلکہ ہمارے پڑھے لکھے اور کم پڑھے لکھے بچوں نے ممبئی اور پونے کی سڑکوں پر نکل کر ان لوگوں کے حوالے کر دیا ہے۔ اگر یہ باہر والے یہ کام کر سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں کر سکتے؟

کوکن میں روزگار کے ہر سوال کا جواب دیا جا سکتا ہے۔ اگر ہم پچھلے سال لاک ڈاؤن کے دوران کوکن کی روزمرہ کی زندگی کے بارے میں سوچیں تو ہماری روزمرہ کی زندگی میں لاکھوں لیٹر گائے بھینس کا دودھ، سینکڑوں ٹن سبزیاں، بکرے، مرغیاں غائب تھیں۔ ہمارے بیشتر بڑے دریا یا تو بارہماسی یا تلچھٹ کے ذریعے بہتے ہیں۔ اس پانی کو استعمال کر کے کوکن کے ماحول میں زمین میں اگنے والی سبزیوں کی پیداوار حاصل کی جا سکتی ہے۔

کوکن کی ندیوں کے دونوں کناروں کے پانی کے صحیح استعمال سے زراعت کا ایک نیا دور آسکتا ہے۔ پولٹری فارمنگ، قیدی بکریوں کی پرورش جیسی صنعتیں کوآپریٹو سوسائٹیز کے ذریعے لاکھوں کا کاروبار کر سکتی ہیں۔ کوکن میں تعاون میں اضافہ نہیں ہوا ہے لیکن تعاون کے ذریعے دودھ کی ڈیری جیسے منصوبے سے سینکڑوں لوگوں کو روزگار ملے گا۔ مویشی پالنے کی مقدار میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے اور اس کے ذریعے روزگار بھی فراہم کیا جا سکتا ہے۔

ایک بڑے میاں کہتے تھے کہ جب ناریل کے درخت پر پھل لگنے لگتا ہے تو گھر کا ایک فرد کمانے والا بن جاتا ہے۔ کوکن میں صرف کچھ لوگ ہی اس باغبانی کی معاشیات کو سمجھتے تھے۔ سمجھنے والوں کی مالی حالت آج مستحکم ہے۔ اس برادرانہ جھگڑے کی وجہ سے کوکن میں سیکڑوں ایکڑ زمین برباد ہے۔ ان تنازعات کو خوش اسلوبی سے طے کیا جانا چاہیے اور ان بنجر زمینوں کو باغبانی کے لیے مناسب طریقے سے استعمال کیا جانا چاہیے۔


(متن کی طوالت کے سبب مکمل متن تقسیم کیا گیا ہے، باقی حصہ اگلے جواب میں جاری ہے۔)

(پہلے حصے سے جاری)

ہمیں آم، کاجو، چنے، امرود، ناریل، پپیتا، پپلی جیسے ‘امیر پھل’ ملتے ہیں۔ ہمارے ہاں کھانے پکانے میں استعمال ہونے والے مصالحوں کے پودوں کی اچھی نمو ہوتی ہے۔ کوکن میں گھر کے ساتھ یا کھیت کے پشتے پر شیگیا کا درخت ہوتا ہے۔ ہم سب سے بڑھ کر میتھی کا استعمال کرتے ہیں، لیکن تجارتی باغبانی بہت زیادہ منافع دے سکتی ہے۔ میتھی کی پھلیوں کی آج کی مارکیٹ قیمت کم از کم 5 روپے فی پیس ہے۔ پشکر چوان نامی نوجوان چپلون کے اپنے گنگرے میں اسٹرابیری کی کٹائی کر رہا ہے جبکہ سنگمیشور کا شبھم ڈورکہ میں کلنگڈ، گوبھی اور میریگولڈ کا کامیاب تجربہ کر رہا ہے۔ ہمارے پاس دنیا کا سب سے مہنگا کالا چاول ہے، جس کی کاشت انجینئرز کر رہے ہیں۔ ہمارے پاس سنگمیشور کے سکھرپا علاقے میں خواتین کے سیلف ہیلپ گروپ کے ذریعے ایک نایاب لال چاول کا فارم ہے۔ اس قسم کی باغبانی کے ذریعے زرعی سیاحت کی بھی گنجائش ہے۔

سندھودرگ کے اسولی گاؤں میں سورنگی کے پھول پائے جاتے ہیں۔ گاؤں میں کروڑوں کا کاروبار صرف سورنگی کے پھولوں سے ہوتا تھا۔ یعنی اگر وہ سب کچھ، جو ملک میں نہیں اگایا جاتا، وہ ہمارے کوکن میں اگایا جائے تو کسی اور کی کمپنی میں کام کرنے کے بجائے اپنے فارم پر کام کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

قدرت نے کوکن کو بہت زیادہ تحفہ دیا ہے۔ ہمیں اسے کوکن سیاحت کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔ سیاحت کے لیے ضروری سہولیات اور تربیت لے کر سیاحت کے کاروبار میں قدم اٹھانا چاہیے۔ ہمیں اپنے خوبصورت ساحلوں، ندیوں، آبشاروں، قلعوں، مندروں، غاروں اور روایات سے مالی آمدنی پیدا کرنی ہے۔ سیاحت کے ساتھ ساتھ ہوٹل، ریستورانٹ، ٹرانسپورٹ، لاجز جیسے کاروبار خود بخود بڑھتے ہیں اور متبادل کے طور پر روزگار دستیاب ہوتا ہے۔ آپ فیس بک پیج کے ذریعے سیاحت پر مبنی کاروبار دیکھ سکتے ہیں۔ کوکن میں چار لین سڑکیں، ڈبل لین ریلوے، ہوائی خدمات اور آبی نقل و حمل سے کوکن سیاحت کے لیے اچھے دن آئیں گے اور سیاحت کے روزگار کے مواقع بڑی تعداد میں دستیاب ہوں گے۔

کوکن میں سالانہ فی کس آمدنی میں اضافے کے لیے دو بڑے عناصر ذمہ دار ہیں:

  1. سیاحت کے کاروبار میں اضافہ۔
  2. سروس سیکٹر میں روزگار کے مواقع میں اضافہ۔

پالگھر، رائے گڑھ، رتناگیری اور سندھودرگ اضلاع میں گزشتہ سال مقامی اور غیر ملکی سیاحوں کی تعداد میں بڑا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اس سے ساحلی علاقوں میں ہوم اسٹے، ریستوراں، گھریلو کھانے پینے کی اشیاء اور کاروں کے کاروبار میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ نئی ممبئی اور رائے گڑھ ضلع کے نئے پنویل علاقے میں سروس سیکٹر سے متعلق صنعتوں میں کافی اضافہ ہوا ہے اور روزگار کے مواقع میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔

سیاست دانوں کو کوکن میں نوجوانوں کے روزگار کے مسئلہ پر بھی توجہ دینی چاہیے۔ نوجوانوں کو سیاسی عہدے دینے کے بجائے انہیں معاشی طور پر بااختیار بنانے کی طرف رجحان ہونا چاہیے۔ ان نوجوانوں کے بارے میں سوچنا چاہیے جو اپنا گھر چھوڑ کر کام کے لیے سینکڑوں کلومیٹر دور چلے جاتے ہیں۔

اگر یہ کہا جائے کہ کوکن کی قدرتی خالص ہوا میں بیمار ٹھیک ہو جاتے ہیں، تو ہمیں سوچنا چاہیے کہ پورے مہاراشٹر کے لیے اس کا استعمال کیسے ہوگا۔ مختلف بیماریوں کا علاج کرنے والے کلینک اور مراقبہ کے مراکز قائم کیے جائیں تاکہ لوگوں کو صاف ہوا اور اچھا علاج مل سکے۔

آخر میں، میری گزارش ہے کہ کوکنی مردوں اور نوجوان لڑکوں سے کوئی بھی کام کرتے ہوئے شرم محسوس نہ کریں۔ اپنی زمین کو غیروں کے حوالے کرنے کے بجائے نسل در نسل محفوظ رکھیں، تاکہ آنے والی نسلیں بھی اس سے فائدہ اٹھا سکیں۔

شیطانی آیات سے ہوشیار

ابتدائے اسلام ہی سے دشمنانِ اسلام نے اسلامی تعلیمات پر اعتراض اور اشکال کرنا شروع کیا تھا، اور ہر دور میں اس طرح کے لوگ پائے گئے ہیں اور قیامت تک پائے جائیں گے۔ البتہ ہر زمانے میں اعتراض اور اشکال کی شکلوں اور طریقوں میں تغیر ہوتا رہا ہے۔ پوری دنیا میں اسلام اور اس کے ماننے والوں کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے کے لئے ملین ڈالر خرچ کیے جا رہے ہیں اور بے شمار افراد اس کام پر لگے ہوئے ہیں۔ لیکن اسلام کی خوبی یہ ہے کہ اسے جتنا دبایا جائے گا، اتنا ہی وہ ابھرے گا۔

ہمارے اس ملک میں ایک بڑی تعداد تو وہ ہے جو جہالت اور ناعِلمی کی وجہ سے اسلام مخالف ہیں، لیکن اس سے زیادہ خطرناک وہ پڑھے لکھے لوگ ہیں جو نام سے مسلمان لگتے ہیں لیکن دین بیزار ہیں۔ ان کے دلوں میں اسلامی تعلیمات کے بارے میں شکوک و شبہات ہیں، اسی بناء پر وہ متنازع بیانات دیتے ہیں، حقیقت کے خلاف مواد فراہم کرتے ہیں، بلکہ دشمن کے ہاتھ کا کھلونا بن کر اسلام کے خلاف بدزبانی کو کمال سمجھتے ہیں۔ کبھی ٹی وی پر، کبھی مضامین اور رسائل کے ذریعے، تو کبھی کتابی شکل میں۔

انہی لوگوں میں ہندوستانی نژاد سلمان رشدی بھی شامل ہے جو اپنے فاسد نظریات اور باطل عقائد کی وجہ سے معاشرے اور سماج کے لیے بلکہ پوری انسانیت کے لیے ناسور بنا ہوا ہے۔ آج سے تقریباً نصف صدی پہلے شیطانی آیات کے نام سے اس کی ایک تصنیف نے اسے دشمنانِ اسلام کی نظر میں ہیرو تو پوری امتِ مسلمہ کے نزدیک ملعون اور مطعون بنا دیا۔ اس کتاب کے منظر عام پر آنے کے بعد مسلمانوں میں شدید غم و غصہ پایا گیا اور حالات انتہائی کشیدہ ہو گئے۔ حالات کی سنگینی کو بھانپتے ہوئے اس وقت کی راجیو گاندھی سرکار نے اس کتاب پر پابندی عائد کر دی تھی جس سے یہ ابھرتا فتنہ دب گیا تھا۔

موجودہ مودی سرکار کے خمیر میں ہی اسلام دشمنی شامل ہے، اس لیے مسلمانوں کے جذبات سے چھیڑ چھاڑ کرتی رہتی ہے۔ ملک کی عدالتوں کو اپنے ناپاک منصوبوں کو کامیاب بنانے کے لئے استعمال کرتی ہے۔ حالیہ سالوں اور دنوں میں عدالتوں سے صادر ہونے والے بعض فیصلے اس بات کی تصدیق کرتے ہیں۔ اسی طرح کا ایک ہائی کورٹ کا فیصلہ ملعون سلمان رشدی کی اس متنازع کتاب پر چالیس سالوں سے لگی پابندی ہٹانے کا ہے۔ اس فیصلے سے مسلمانوں میں شدید بے چینی پائی جا رہی ہے۔

اس لیے کہ عدالت کا یہ فیصلہ صرف شیطانی آیات پر سے پابندی ہٹانے کا نہیں بلکہ اس فیصلے سے انسانوں کی شکل میں موجود تمام شیاطین سے پابندی ہٹا دی گئی ہے۔ اب ان شیاطین کو حکومت کی پشت پناہی میں اسلام مخالف سرگرمیوں کی اجازت مل گئی ہے۔ جب عدالتیں اور حکومتیں ہی ہماری معاند ہوں تو ان حالات میں بہت زیادہ ہوشیار اور چوکنا ہو کر دینِ متین پر استحکام کی ضرورت ہے۔ ایمان اور عقائد کی پختگی کے سلسلے میں فکر پہلے سے زیادہ ہونا چاہیے، اور اس طرح کی متنازع کتابوں اور تحریروں سے خود کو، خاص کر نئی نسل کو بچانے کی ضرورت ہے۔

vسوال: اگر کسی شخص کا آپریشن ہو، اور وہ مسلسل بے ہوش (Unconscious) ہو تو ایسے مریض کی نمازوں سے متعلق کیا حکم ہے؟

جواب: نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
’’تین افراد سے قلم اٹھا لیا گیا ہے: بچے سے جب تک کہ وہ بالغ نہ ہو، سونے والے سے جب تک کہ وہ جاگ نہ جائے، اور مجنون سے جب تک کہ اس کی عقل واپس نہ آ جائے۔‘‘

اس حدیث سے فقہاء نے استدلال کیا ہے کہ اگر کسی شخص کا آپریشن ہو اور وہ اس دوران یا اس کے بعد مسلسل بے ہوش (Unconscious) رہے تو اس صورت میں اس پر بے ہوشی کے دوران کی نمازوں کی قضا ضروری نہیں ہے۔ البتہ قضا کرنا سنت ہے۔

١﴾ قال الخطيب الشربيني:
(أَوْ) ذِي (جُنُونٍ أَوْ إغْمَاءٍ) إذَا أَفَاقَ، وَمِثْلُهُمَا الْمُبَرْسَمُ وَالْمَعْتُوهُ وَالسَّكْرَانُ بِلَا تَعَدٍّ فِي الْجَمِيعِ، لِحَدِيثِ «رُفِعَ الْقَلَمُ عَنْ ثَلَاثٍ: عَنْ الصَّبِيِّ حَتَّى يَبْلُغَ، وَعَنْ النَّائِمِ حَتَّى يَسْتَيْقِظَ، وَعَنْ الْمَجْنُونِ حَتَّى يَبْرَأَ»
صَحَّحَهُ ابْنُ حِبَّانَ وَالْحَاكِمُ۔ فَوَرَدَ النَّصُّ فِي الْمَجْنُونِ، وَقِيسَ عَلَيْهِ كُلُّ مَنْ زَالَ عَقْلُهُ بِسَبَبٍ يُعْذَرُ فِيهِ، وَسَوَاءٌ قَلَّ زَمَنُ ذَلِكَ أَوْ طَالَ، وَإِنَّمَا وَجَبَ قَضَاءُ الصَّوْمِ عَلَى مَنْ أُغْمِيَ عَلَيْهِ جَمِيعَ النَّهَارِ لِمَشَقَّةِ قَضَاءِ الصَّلَاةِ؛ لِأَنَّهَا قَدْ تَكْثُرُ، بِخِلَافِ الصَّوْمِ۔ نَعَمْ يُسَنُّ لِلْمَجْنُونِ وَالْمُغْمَى عَلَيْهِ وَنَحْوِهِمَا الْقَضَاءُ۔

٢﴾ قال في الفقه المنهجي:
وكذلك لا يجب القضاء على المجنون والمغمى عليه إذا أفاقا من الجنون والإغماء، ودليل ذلك قوله ﷺ: «رفع القلم عن ثلاثة: عن الصبي حتى يحتلم وعن النائم حتى يستيقظ، وعن المجنون حتى يعقل»

١] مغني المحتاج _٤٣٧/١
٢] الفقه المنهجي _١١٣/١
المنهاج القويم _٦٩
المجموع _١١/٤

شریوردھن فش فارم میں لگی آگ! پولیس کی مستعدی پر عملے کی سراہنا

شریوردھن (نامہ نگار ):شریوردھن میں واقع جیٹی پر ایک فش فارم میں آگ لگنے کی وجہ سے مچھلی کی دو کشتیاں جل گئیں۔ جس میں تقریباً سات سے آٹھ لاکھ روپے کے نقصان کا اندازہ لگایا جا رہا ہے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ شریوردھن پولیس کی مستعدی کی وجہ سے بڑا حادثہ ٹل گیا، جس پر پولس عملہ کی سراہنا کی جارہی ہے. یہ فش فارم عتیق وسگرے نامی شخص کی ملکیت کا ہے جس میں سمندر سے پکڑی گئی مچھلیاں ڈیپ فریزر میں ذخیرہ کی جاتی تھی اور بڑے بڑے ہوٹلوں نیز کمپنیوں کو فروخت کی جاتی تھیں۔ اس آگ میں فارم کی مچھلیاں اور دیگر سامان بھی جل کر خاکستر ہوگیا ہے۔ ابتدائی اندازہ ہے کہ آگ شارٹ سرکٹ کے باعث لگی ہوگی ۔
رات کے گشت کے دوران مذکورہ آگ پولیس کانسٹیبل جادھو، اسسٹنٹ فوجدار گبالے، پولس کانسٹیبل نکاجے، تڈوی کے نوٹس میں آئی۔ انہوں نے فوری طور پر موقع پر پہنچ کر مقامی شہریوں کو آگاہ کیا اور شریوردھن میونسپلٹی کے فائر عملہ کی مدد سے آگ پر قابو پالیا گیا۔ یہ آگ قریب ہی موجود ایک فائبر بوٹ اور ایک کشتی میں بھی سے لگ گئی جن کے ساتھ مزید دوسری کشتیاں بھی تھیں۔ پولیس نے مقامی شہریوں کی مدد سے دیگر کشتیوں کو ایک طرف منتقل کر دیا ورنہ تمام کشتیاں جل کر خاکستر ہو جاتیں اور ماہی گیروں کا بھاری نقصان ہوتا۔ پولیس کی چوکسی کی وجہ سے کسی بڑے سانحے کو ٹالنے پر پولیس انتظامیہ کو سراہا جا رہا ہے۔

مدرسہ تعلیم الاسلام دابھول کے زیر اہتمام یکروزہ تکمیل حفظ قرآن مجید و جلسہ دستار بندی اختتان پذیر

قرآن کریم ہی وہ کتاب جسے کوئی بھی عالمی سازش ختم نہیں کر سکتی ۔ قاری رشید احمد اجمیری
مهاڈ:گذشتہ 24/ نومبر بروز اتوار مدرسہ تعلیم الاسلام دابھول کے زیر اہتمام تکمیل حفظ قرآن مجید و جلسہ دستار بندی کا انعقاد عمل میں آیا ہے اس اجلاس کی صدارت حضرت اقدس مولانا محمد بن عمر گجراتی استاذ حدیث و تفسیر جامعہ حسینیہ عربیہ شریورھن نے فرمائی جبکہ خصوصی مقرر کے طور پر حضرت اقدس قاری رشید احمد اجمیری شیخ الحدیث جامعہ اشرفیہ راندیر گجرات مدعو رہے اجلاس کا آغاز تلاوت قرآن مجید اور نعت نبی ﷺ سے ہوا۔
بعدہ تکمیل حفظ قرآن مجید کے آخری درس کے لئے حضرت اقدس قاری رشید احمد اجمیری صاحب اسٹیج پر تشریف لائے اور دو فارغ حفاظ کاشف شکیل پیویکر ( وہور ) اور سعود ساجد ساکھر ( اراثھی) کو آخری درس دیکر انکے سروں میں وراث انبیاء کا تاج سجانے کی کاروائی مکمل کی اسکے بعد مفتی اصغر کھوپٹکر مہتمم مدرسہ تعلیم الاسلام دابھول دابھول نے مدرسہ تعلیم الاسلام دابھول کی یوم تاسیس سے لیکر اب تک کی تعلیمی اور علاقے میں سماجی و فلاحی خدمات کی انجام دہی پر بڑی تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے عوام الناس کو موجودہ حالات و کوائف سے آگاہ کیا مزید انہوں نے کہا کہ علاقے میں رفاہی و فلاحی خدمات کے لئے موجودہ جگہ اور دیگر وسائل بہت کم پڑ رہے ہیں اسلئے ہمیں یہاں سے باہر نکل کر کہیں بڑی جگہ تلاش میں ہیں جسمیں ہم مزید عمدہ طریقے سے عوامی خدمات اور تعلیمی کارکردگی میں نکھار پیدا کر سکیں گے اسکے لئے فرزندان توحید کے ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر سے اپیل بھی کی کہ اس بڑے تعلیمی پروجیکٹ کے لئے ہمارا تعاون کریں اس اجلاس میں بطور مقرر خصوصی مدعو رہے حضرت اقدس قاری رشید احمد اجمیری صاحب نے قرآن کریم کی عظمت و فضیلت پر ولولہ انگیز اور ایمان افروز باتیں کہیں انہوں نے کہا کہ آج ہم ذلیل و خوار اسلئے ہورہے ہیں کہ ہم قرآن پڑھتے نہیں اگر پڑھتے بھی ہیں تو قرآن کے پیغامات کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے یہ ایسی کتاب ہے جسے عالمی کوئی بھی سازش ختم نہیں کر سکتی اور دنیا میں امن و سکون کا واحد ذریعہ قرآن ہے آج ہم مسلمانوں کی بدنصیبی ہے کہ اس مقدس کتاب کو ہم نے ترک کر رکھا ہے ۔
یہ اجلاس تکمیل حفظ قرآن مجید ہر آئینہ کامیاب رہا اس اجلاس کی نظامت مولانا عارف حسین طیبی ناظم تعلیمات مدرسہ تعلیم الاسلام دابھول نے بحسن و بخوبی انجام دیئے اس اجلاس میں جہاں مختلف تعلقہ جات کے عوام الناس نے بڑی تعداد میں شرکت کی وہیں علاقے اور خطے کےسماجی ، تعلیمی ، ملی اور سیاسی شخصیتوں کی شرکت بھی بڑی تعداد میں ہوئیں جسمیں انجمن درمندان تعلیم و ترقی کے صدر مفتی رفیق پورکر صاحب ، سیکریٹری قاری عثمان کاروباری ، فجندار ہائی اسکول اینڈ جونیئر و سینئر کالج کے چیئر مین عبد الروف فجندار سر ، سی ای او ندیم فجندار اور پرنسپل راحل فجندار سر ، مفتی مظفر سین ، قاری عبد الستار راہٹول کر ، مولانا عبد السلام جلال ، مفتی نظیر کرجیکر ، مولانا عبد المجید جھٹام ، مفتی تابش دیشمکھ ، ڈاکٹر عبد اللہ چودھری کے اسماء گرامی قابل ذکر ہیں ۔اخیر میں حضرت قاری رشید احمد اجمیری صاحب کی رقت آمیز دعاؤں اور مفتی اصغر کھوپٹکر صاحب کی کلمات تشکرانہ کی ادائیگی کے ساتھ اجلاس اختتام پذیر ہوا ۔ادارے کی جانب سے بعد نماز مغرب تمام شرکاء اجلاس کے لئے طعام کا بھی معقول نظم کیا گیا تھا۔

कार्टून एखादा सिनेमा खूप चालला की मग लगेच तशाच पठडीतले सिनेमे अगदी आशय विषय तोच किंवा तसच घेऊन अनेक लोक सरसावतात. काय तर म्हणे हल्ली तसा ट्रेंड आहे.

किंवा पब्लिकला तेच हवंय, असा चक्क आग्रह किवा समज पसरवून सिनेमा माध्यमातून गल्ला भरू इच्छितात. सिनेमा म्हणजे केवळ प्रबोधन नव्हे तर धन हा शब्द बहुमोल ठरतो. म्हणून जमेल ते व तसे रचून गल्ला भरणे योग्य वाटते का? हे काल्पनिक नव्हे तर आजही असेच घडत आहे. म्हणूनच उत्कृष्ट दर्जाचा मनोरंजक सिनेमा आज येतच नाही.

ह्याच पठडीतले किंबहुना काहीसे खरे अन बहुतांशी भ्रामक चित्र म्हणजे कार्टून होय. कार्टून हा शब्द ऐकताच माणूस उत्सुकतेने त्याकडे पाहू लागतो. पूर्वीच्या काळात टॉम अँड जेरी हा संवाद नसलेला दहा मिनिटांचा कार्टून सिनेमा टेलिव्हिजनवर पहायला मिळत असे. त्यातील मांजर-उंदीर आकाराने दोघेही विक्षिप्त. बुद्धीला न पटणारे. पण त्यांच्यातली एकूण कथानक पाहून पोट धरून हंसु येतेच. त्या दोघांतील जगण्याची एकूण समस्या म्हणजे काय? तर पावाचा एक लोफ, त्रिकोणी चीजचा तुकडा…आणि ते सर्व आपल्यालाच मिळावे, शिवाय त्या उंदीर मामाला अजिबात मिळू नये, असं हे अकल्पित कथानक! दोघांच्या राहणीमानातले अंतर अशा बारीकसारीक घटनांनी रंगवून दाखवणारा तो रंजक सिनेमा म्हणजे टॉम अँड जेरी. दोघांत असलेली जगण्याची रेस, जिद्द आणि त्यातही गंमत म्हणून मजेशीर किस्से हे सर्व छोट्या पडद्यावर पाहतांना माणूस त्या चौकटीत पार गुंतला जायचा. आणि आजही त्याची एक झलक पाहताच डोळे अन मन टीव्हीच्या चौकटीत नकळत रमून जातं. पांच ते सत्तर वयातले सारे बच्चेकंपनी अशा कार्टूनचे दिवाने आजही आहेत. आतांतर टेलिव्हिजन चौकटी पेक्षा लहान असलेला चौकोन म्हणजेच टच स्क्रीन अँड्रॉईड मोबाईल खिशात आला आहे. तद्नंतर मिडिया नव्या अवतारत दिसू लागला. पेपरातील चिंटू चक्क डिजिटल झाला. अनेक किस्से कहाण्या रचवून विविध नावाने कार्टून फिल्म्स येऊ लागल्या. पूर्वी मटात “कसं बोललात” म्हणून आर.के. लक्ष्मण यांचे अभ्यासपूर्ण स्केचिंग असायचं. त्या दिवशीच्या अंकातली न्यूज हेडिंग आणि त्यांस समर्पक असे श्री लक्ष्मण यांनी रेखाटलेले कार्टून! एकदम परिणामकारक आणि वस्तुस्थिती सांगणारं असायचे.

कार्टून म्हणजे केवळ मिश्किली नव्हे. कार्टून हा एक आर्ट होता व तो आजही आहे. प्रिंट मिडियातले आवाज, बुवा हे मराठी दिवाळी अंक विनोदी लिखाणासाठी महशूर आहेत. त्यातही मुखपृष्ठावर कार्टून शिवाय अंक नाही. वाचक त्यांतील स्केच केलेली कार्टून्स आजही फेमस आहेत. कार्टून हा मानवी मनाचा स्वतःशी केलेला आत्मिक संवाद होय, असे अनुभवातून सांगत आहे.सध्या दाखवायचा विनोद फारच फोफावला आहे. मराठीत तर त्याचे पेव दिसते. काही प्रमाणात तो उच्च स्तर गाठतो तर काही वेळा तो बटबटीत वाटू लागतो. पण हिंदी चित्रपट निर्मिती पेक्षां मराठी विनोद जास्त खरा वाटतो आणि तो नक्कीच उजवा वाटतो. “मी विनोद सांगतो तुम्हीं हंसा!” मग तो विनोद काय दर्जाचा असू शकेल? हे ज्याचे त्यांनी ठरवावे. मराठी सिनेमातला विनोदी बादशाह अशोक सराफ आहे, यांत कुणाचे दुमत नसावे.

गतकाळातील सिने नायक दिलीप कुमार यांनी आपल्या प्रेस मुलाखतीत एका प्रश्नाचे उत्तर फारच विनोदी आणि मिश्किल शब्दांत सांगितले होते.
प्रश्न – फावल्या वेळात तुम्ही काय करता?

उत्तर – मी लॉरेल हार्डी आणि टॉम अँड जेरी कार्टून आवडीने पाहतो. त्यामुळे खूप मनोरंजन होते. मेंदू तरल होतो. स्वतःशी बोलता येते! त्यांनी काम केलेले सिनेमे म्हणजेच comedy via tragedy असा झालेला प्रवास होय. आझाद, लीडर, राम और श्याम असे निवडकच पण आठवणीत जाऊन वसलेले चित्रपट अफलातून विनोदाची धारदार कमाल! असंच म्हणावं लागेल.पुढे तत्कालीन देव आनंद आणि राजकपूर हे दर्जेदार कलाकार आज हयात नसतील पण त्यांचे मनोरंजक सिनेमे लाजवाब होते. देव आनंद यांना विनोद विशेष नाही जमला, पण राजकपूर हे हिंदी सिनेमाचे तत्कालीन आणि एकमेव शोमन म्हणून सर्वानां ज्ञात आहेत. दिलीप, देव यांचे अनुकरण करणारे हिंदी सिने इंडस्ट्रीत अनेक झाले पण राजकपूर सारखा नायक खुद्द राकपूरच होय. स्वतःवर विनोद करण्याचे कठिण काम त्यांनी मेरा नाम जोकर मध्ये करुन उशिरा का होईना लोकांची वाह वाह मिळवली. राजकपूर सारखी अदाकारी आजवर कुणी केली असेल असे नाही वाटत. अनिल कपूर या कलाकाराने एका चित्रपटात प्रयत्न केलेला आठवतो. एव्हढेच!

कार्टून हे इतके प्रभावी माध्यम अजूनही लोक आवडीने पाहतात.. त्यांत नवनवीन सुधारणा होत आहेत हेही लक्षात येते. लोक त्यांस स्वीकारतात. कार्टून या माध्यमातून समाज प्रबोधन साधता येते. सिनेमा पेक्षा कमी खर्चात तयार करता येत असल्या मुळे अनेकजण या माध्यमातून आपले विचार व्यक्त करत आहेत.छोटाभीम ही कार्टूनची मालिका घराघरांत पोहोचलेली आहे. त्याचे संवाद, पार्श्वसंगीत, त्यांतील इतर पात्रं, रंजक सिनेमाटोग्राफी, देण्यांत आलेला उसना आवाज, पार्श्व संगीत. इत्यादी मस्त जमून जाते. त्याच्या तुलनेत इंग्लिश कार्टून्स जास्त गतिमान आहेत. म्हणूच बच्चा कंपनी बेहद्द खुश असते.जेणेकरून कार्टून हा विषय खूपच जास्त प्रमाणात प्रगत झाला आहे. आणि त्याचा चाहता वर्ग सगळीकडे आहे.जागतिक पातळीवर त्यांस लोकाश्रय मिळाला आहे. जगात मनोरंजन क्षेत्रातील सर्वात जास्त स्वीकारला गेलेला नामांकित विषय म्हणजे कार्टून आहे, हे सारेच मान्य करतील.महाराष्ट्राची हास्य जत्रा एक सजीव मराठी विनोदी कार्यक्रम सध्या खूपच गाजतोय. उत्तम लिखाण आणि दर्जेदार सादरीकरण यामुळे महानायक सुद्धा स्तिमित होऊ शकतात, हिच तर खरी शक्ती आहे विनोदात!

चवदारतळे सुशोभिकरण व भीमसृष्टी साकारण्यास प्राधान्य देणार : आ. गोगावले

महाड, (प्रतिनिधी) -आज महापरिनिर्वाण दिना निमित्त चवदार तळे येथील भारतरत्न डॉ. बाबासाहेब आंबेडकर यांच्या पुतळ्याला पुष्पहार अर्पण करून आ. भरतशेठ गोगावले यांच्यासह महायुतीच्या पदाधिकाऱ्यांनी अभिवादन केले.

यांच्यासह महायुतीच्या पदाधिकाऱ्यांनी अभिवादन केले.
यावेळी प्रसार माध्यमांशी बोलताना आ. भरतशेठ गोगावले यांनी माजी मुख्यमंत्री व विद्यमान उपमुख्यमंत्री एकनाथ शिंदे यांनी मागील महायुती सरकारच्या कारकिर्दीत चवदार तळे सुशोभिकरणासाठी 7 कोटी, राजर्षी शाहू महाराज सभागृहासाठी 3 कोटी मंजुर केले असून हे काम गतीने पुर्ण करण्यास आपले प्राधान्य राहील याच बरोबर महाड येथे शिवसृष्टीच्या धर्तीवर भीमसृष्टी करण्याचा आपला प्रयत्न असेल असे गोगावले यांनी सांगितले.

महापरिनिर्वाण दिनी नागपुर येथील दिक्षाभुमी व दादर येथील चैत्यभुमीवर अभिवादन करण्यासाठी येणाऱ्या आंबेडकरी अनुयायांची सर्व व्यवस्था राज्य शासनामार्फत करण्यात आली आहे. 20 मार्च रोजी डॉ. बाबासाहेब आंबेडकर यांना शासनातर्फ मानवंदना देण्याची प्रथा आपण सुरु केली आहे ती भविष्यात अखंडपणे सुरु राहणार आहे. महायुती सरकारच्या मागील अडीच वर्षाच्या काळात समाज कल्याण विभागा कडुन दिल्या गेलेल्या निधीतून प्रत्येक बौद्धवाडीत बुद्ध विहार बांधण्याचा आपण संकल्प केला असून 80 टक्के गावातून हे काम झाले असून उर्वरित गावांमध्ये येणाऱ्या काळात बुद्ध विहार बांधण्यात येतील. महायुती सरकार कडून डॉ. बाबासाहेब आंबेडकर यांची स्मारके ज्या ज्या ठिकाणी आहेत त्या त्या ठिकाणी चांगली कामे व या ठिकाणी भेट देण्यासाठी येणाऱ्या अनुयायांची सर्व सोयी सुविधा उपलब्ध करून एक चांगला आदर्श ठेवण्याचा आमचा प्रयत्न असेल असे आ. गोगावले यांनी सांगितले.

दिव्यांग व्यक्तींना शासनाकडून सर्व प्रकारे सहकार्य करण्यात येईल ः महेश शितोळेप्रहार अपंग क्रांती संस्थेच्या वतीने जागतिक दिव्यांग दिन सोहळा

महाड -दिव्यांग व्यक्तींना शासनाकडून सर्व प्रकारे सहकार्य करण्यात येईल असे आश्वासन महाडचे तहसीलदार श्री महेश शितोळे यांनी दिले .चवदार तळ्या वरील डॉक्टर बाबासाहेब आंबेडकर सभागृह महाड येथे अपंग क्रांती संस्था

व संघर्ष दिव्यांग कल्याणकारी संस्था , लायन्स क्लब महाड, मुक्तांगण दीव्यांग मुलांची शाळा यांच्या संयुक्त विद्यमाने जागतिक दिव्यांग दिन सोहळ्याचे आयोजन करण्यात आले होते त्यावेळी ते बोलत होते.

यावेळी व्यासपीठावर महाड पोलादपूर प्रहार अपंग क्रांती संघटनेचे अध्यक्ष श्री फैज हुर्जूक,कार्यक्रमाचे अध्यक्ष श्री महेश शितोळे, प्रमुख पाहुणे महाड पंचायत समितीचे सहाय्यक गटविकास अधिकारीश्री. नामदेव कटरे , महाड लायन्स क्लब अध्यक्षा डॉक्टर श्रीमती मंजुषा कुद्रीमोती, समाजसेवक श्री.बाबूलाल जैन, महाड शहर पोलीस स्टेशनचे उपनिरीक्षक श्री.संदीप पाटील, नगरपालिकेचे दिव्यांग विभाग प्रमुखश्री. दीपक महाडिक आदी मान्यवर उपस्थित होते.

यावेळी अध्यक्षीय भाषणात तहसीलदार महेश शितोळे यांनी आजचा कार्यक्रम हा बहुसंख्येने होत असल्याचे सर्व अपंग बंधूंचे आभार मानून दरवर्षीप्रमाणे याही वर्षी अपंग दिनाचे औचित्य साधून प्रत्येक निधीचे वाटप आणि शासनाच्या योजना याचा लाभअपंग बंधूंनी कसा घ्यावा याबाबत थोडक्यात माहिती देऊन सर्वांना शुभेच्छा दिल्या. प्रथम मान्यवरांचे हस्ते दीप प्रज्वलन करण्यात आले. त्या नंतर महाड-पोलादपूर प्रहार अपंग क्रांती संघटनेच्या वतीने कार्यक्रमाचे अध्यक्ष व व्यासपीठावरील इतर मान्यवरांचा शाल व पुष्गुच्छ देऊन सत्कार करण्यात आला. मुक्तांगण दीव्यांग मुलांची शाळेच्या विद्यार्थ्यांनी सांस्कृतिक कार्यक्रम सादर केले.

नगरपालिकेचे दिव्यांग विभाग प्रमुख श्री. दीपक महाडिक यांनी मनोगत व्यक्त करताना महाड नगरपालिका हद्दीत एकूण 140 दिव्यांग व्यक्ती असून 130 जणांना निधी वाटप करण्यात आल्याचे सांगितले.महाड नगर परिषदेच्या वतीने मान्यवरांच्या हस्ते काही दिव्यांग बंधूंना धनादेशाचे वाटप करण्यात आले .

महाड पोलादपूर प्रहार अपंग क्रांती संघटनेचे अध्यक्ष श्री. फैज हुर्जूक यांनी महाड नगर परिषदेच्या वतीने अपंग बंधूंना पाच टक्के अपंग निधी वाटप करण्यात येत असल्याचे सांगून संघटनेच्या वतीने श्री. दीपक महाडिक यांचे आभार मानले त्याचप्रमाणे महाड तालुक्यातील 134 ग्रामपंचायत पैकी काही ग्रामपंचायती अपंग निधीचे वाटप करत नाहीत याबाबत नाराजी व्यक्त केली. महाड पंचायत समितीचे सहाय्यक गटविकास अधिकारी श्री. नामदेव कटरे यांनी महाड तालुक्यातील पंचायत समितीच्या वतीने प्रत्येक अपंग बांधवांना अपंग निधीचे वाटप करण्यात येईल व तालुक्यातील 134 ग्रामपंचायत पैकी ज्या ग्रामपंचायती अपंग निधीचे वाटप करत नाही त्यांना आमच्या वतीने प्रत्येक अपंग बांधवांना अपंग निधीचे वाटप करण्याचे आदेश देण्यात येतील असे सांगुन सर्वांना शुभेच्छा दिल्या. महाड शहर पोलीस स्टेशनचे पोलिस उपनिरीक्षक श्री संदीप पाटील यांनी आजच्या कार्यक्रमाचे भव्य आणि दिव्य आयोजन करण्यात आले असल्याचे सांगून आपणास अपंग कोण म्हणेल आपण तर सदृढ आणि निश्चय व्यक्ती दिसता आजचा कार्यक्रम हा सर्वांचा आनंदाचा दिवस असल्याचे सांगुन सर्वांना शुभेच्छा दिल्या.

या वेळी महाड लायन्स क्लब अध्यक्षा डॉक्टर श्रीमती मंजुषा कुद्रीमोती, समाजसेवक श्री.बाबूलाल जैन यांनी पण आपली मनोगते व्यक्त केली. सूत्रसंचालन श्री इकबाल देशमुख यांनी केलेयावेळी दिव्यांग अपंग बंधू-भगिनी मोठ्या प्रमाणात या कार्यक्रमासाठी उपस्थित होते.या कार्यक्रमाला यश्सवि करण्यास संघटनेचे पदाधाकारी इम्रान सावंत, आरती सुगदरे,कृष्णा लाड, दिलीप पवार, सबापरविन वारोसे, मोहसिन दरेखान, सनिल जंगम, मंजुषा साबळे यांनी मेहनत घेतली.

करंजा गावातील 11 वर्षीय मयंक म्हात्रे यांनी रचला नवा इतिहास घारापुरी ते करंजा जेट्टी 18 किलोमीटरचा प्रवास 5 तास 29 मिनिटात समुद्रात पोहून केला विक्रम

उरण, (विठ्ठल ममताबादे) -उरण तालुक्यातील करंजा येथील सुपुत्र, प्रसिद्ध जलतरणपटू मयंक म्हात्रे (वय 11)याने मंगळवार दिनांक 3 डिसेंबर 2024 रोजी मध्यरात्री 1:04 मिनिटाने प्रसिद्ध घारापुरी बंदर येथून समुद्रातील लाटांना आव्हान देत रात्रभर सतत पोहत सकाळी 7 वाजण्याच्या अगोदरच करंजा जेट्टी येथे पोहोचला. उरण तालुक्यातील घारापुरी बंदर ते करंजा जेट्टी हे सागरी 18 किलोमीटर अंतर निर्धारित वेळेपेक्षा कमी वेळेत पोहून पार करत पुन्हा एकदा नवा इतिहास घडवीला आहे.

11 वर्षीय मयंक म्हात्रे हा सेंटमेरी कॉन्व्हेंट स्कूल उरण येथे शिकत असून कोंढरीपाडा करंजा येथे तो वास्तव्यास आहे. दररोज 5-5 तास तो पोहण्याचा सराव करत असे. त्यातून सर्वांच्या मार्गदर्शनामुळे 3 डिसेंबर 2024 रोजी उरण तालुक्यातील घारापुरी ते करंजा जेट्टी हा समूद्रातील प्रवाह( चॅनेल )पोहून त्यांनी नवा विक्रम केला आहे. घारापुरी ते करंजा हे अंतर सहा तासाच्या आत पूर्ण अपेक्षित होते मात्र मयंकने ते अंतर पाच तास 29 मिनिटात पूर्ण केले. गेल्यावर्षी धरमतर तर ते करंजा जेट्टी कमी वेळेत व कमी वयातील जलतरणपटू म्हणून पोहण्याचा विक्रम केला तसेच 3 डिसेंबर 2024 रोजी घारापुरी ते करंजा जेट्टी कमी वेळेत, कमी वयात पूर्ण केल्याचे दोन्ही रेकॉर्ड मयंक म्हात्रे यांच्या नावावर आहेत. या दोन्ही मार्गावर पोहणारा तो सर्वप्रथम जलतरणपटू ठरला आहे. इतिहासात याची कायमची नोंद होणार आहे.मयंक म्हात्रे करंजा जेट्टी येथे सकाळी पोहोचताच करंजाचे ग्रामस्थ, विविध सामाजिक संस्था, संघटनांनी त्याचे ढोल ताशाच्या गजरात वाजत गाजत स्वागत केले.करंजा जेट्टी येथे मयंक म्हात्रे याचा छोटे खाणी सत्काराचा कार्यक्रम आयोजित करण्यात आला. यावेळी शेतकरी कामगार पक्षाचे युवा नेते प्रितम म्हात्रे,शेतकरी कामगार पक्षाच्या महिला उरण तालुका अध्यक्ष सीमा घरत,सामाजिक कार्यकर्ते सचिन डाऊर,महाराष्ट्र हौशी जलतरण संघटनेचे रायगड जिल्हाध्यक्ष राजीव कोळी, संघटनेचे निरीक्षक शैलेश सिंग, एडवोकेट सागर कडू, प्राध्यापक एल बी पाटील, सामाजिक कार्यकर्ते सीताराम नाखवा, चाणजे ग्रामपंचायतचे सरपंच अजय म्हात्रे,सामाजिक कार्यकर्ते दिनेश थळी,नितीन कोळी, हेमलता पाटील, संजय ठाकूर आदी मान्यवर यावेळी उपस्थित होते.मयंक म्हात्रे याला सुरवातीपासून त्याचे आई वीणा दिनेश म्हात्रे व वडील दिनेश म्हात्रे यांचे मार्गदर्शन लाभले.
मयंकच्या या ऐतिहासिक कामगिरीस प्रशिक्षक किशोर पाटील, प्रशिक्षक हितेश भोईर यांचे महत्वाचे मार्गदर्शन लाभले आहे तर उरण तालुका हौशी जलतरण संघटनेचे सचिव सुनिल पाटील, प्रशिक्षक मनोहर टेमकर, जलतरण पटू आर्यन मोडखरकर, जयदीप सिंग, वेदांत पाटील, रुद्राक्षी टेमकर, आर्य पाटील आदींचे सहकार्य या विक्रमा दरम्यान लाभले आहे. मयंक म्हात्रे याच्या आजपर्यंतच्या कामगिरीची दखल घेत त्याची निवड स्पर्धेसाठी सेंटमेरी स्कुलच्या माध्यमातून राज्यस्तरावर झाली आहे. उरण नव्हे तर संपूर्ण रायगड जिल्हा, मुंबई जिल्ह्याचे नेतृत्व करणाऱ्या मयंक दिनेश म्हात्रे वर सर्वच क्षेत्रातून शुभेच्छा व अभिनंदनाचा वर्षाव होत आहे.